Pages

Friday, December 30, 2022

Mann K Mohally Main Episode #3 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels

Mann K Mohally Main Episode #3 By Shakeel Ahmed Chouhan




Mann K Mohally Main Episode #3 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels

من کے محلے میں


Episode #3

”بھائی…! میں سمجھ سکتی ہوں…پلیز تھوڑی دیر اور برداشت کر لیں… پلیز میری خاطر…“
”اوکے… نو پرابلم“ مزمل نے ایک جینٹلمین کی طرح جواب دیا اور چل دیا۔
”بھائی…! چائے کی طلب ہو رہی ہوگی نا…؟“
مزمل کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی باذلہ کی بات سُن کر۔
”بھائی…! رسمیں شروع ہونے والی ہیں جلدی آجائیے گا…“ باذلہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔


”کال کر لینا“ مزمل نے چلتے چلتے باذلہ کو دیکھے بغیر کہا۔ وہ اپنا موبائل کوٹ کی پاکٹ سے نکال کر دیکھنے لگا جس پر کافی ساری مس کالز تھیں ۔جن میں سے تین باذلہ کے نمبر سے بھی آئی تھیں۔ مزمل کا موبائل سائلنٹ موڈ پر تھا۔
مزمل شادی ہال کے باہر کھڑا اپنے دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیبوں میں ڈالے ہوئے ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا۔

جی ٹی روڈ کی دوسری جانب اُسے مین سڑک سے اندر جاتی ہوئی ایک چھوٹی سڑک پر ایک چھوٹی سی مسجد نظر آگئی۔


مزمل نے اپنی وائیٹ مرسڈیز کی طرف دیکھا، جو کہ دُلہن ہی کی طرح سجی ہوئی تھی۔ اُس نے پینٹ کی جیب سے ہاتھ نکال کر اپنے کوٹ کی پاکٹ میں ڈالا اُسے یاد آیا چابی تو اُس نے باذلہ کو دے دی ہے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد مزمل نے پیدل ہی جی ٹی روڈ کراس کیا اور سڑک کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ شادی ہال کے بیرونی دروازے سے آگے پہلے جہاں مزمل کھڑا تھا اب اُسی جگہ ماہم کھڑی تھی۔


سڑک کی دوسری طرف مین جی ٹی روڈ پر صرف سرامکس کی بند پڑی فیکٹری اور”م“ گرلز ہائی اسکول تھا۔
 ”م گرلز ہائی اسکول“ مزمل نے سائن بورڈ پر لکھے ہوئے الفاظ منہ میں حیرت سے دہرائے۔
فیکٹری اور اسکول کے درمیان جی ٹی روڈ سے ایک چھوٹی سڑک معراج کے گاؤں تک جا رہی تھی۔
اُسی سڑک پر فیکٹری کی مسجد تھی۔ جس کا ایک دروا زہ فیکٹری کے احاطے کی طرف کھلتا تھا۔

اُس دروازے پر ایک زنگ زدہ تالا پڑا ہوا تھا۔ دوسرا دروازہ چھوٹی سڑک کی طرف تھا۔ مسجد کے اُسی دروازے کے سامنے اور اسکول کے پیچھے ایک مخروطی چھتوں والا دو منزلہ مکان تھا، جس کے دروازے اور کھڑکیاں پرانی طرز کی تھیں۔ کھڑکیوں پر پیچھے لوہے کی سلاخیں اور آگے لکڑی کے تختے تھے۔ مسجد کے اُسی دروازے کے ساتھ عاقل دواخانہ اور اس کے ساتھ حکیم عاقل انصاری کا گھر ۔

فیکٹری کے پیچھے آٹھ دس گھر اور بھی تھے ۔ اِس کے برعکس جس طرف ملن شادی ہال تھا اُس طرف کافی رونق تھی، شادی ہال کے آجو باجو بہت سی دکانیں تھیں۔
مزمل مسجد کے اندر داخل ہوگیا۔ ماہم وہیں کھڑی ہوئی اُسے اندر جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
”تم یہاں کیا کر رہی ہو“ عشال نے ایک دم سے کہا۔
”میں یہاں…؟ہاں…وہ…اندر گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس لیے ہوا خوری کے لیے یہاں آگئی“ ماہم نے بتیسی نکالتے ہوئے وجہ بیان کی۔


”کھانے سے پیٹ بھرتا ہے…ہوا سے نہیں … چلو میرے ساتھ اور کھانا کھاؤ! جلدی کرو ورنہ شادی کی رسمیں شروع ہو جائیں گی“عشال نے حکمیہ انداز میں کہا۔
”مجھے بھوک نہیں…میرے سر میں بھی درد ہے“
ماہم نے بوجھل ہو کر جواب دیا۔ وہ عشال سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔
”تم ایسا کرو…اندر جاؤ میں دوائی کھا کر آتی ہوں“ ماہم نے اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔

عشال نے اُس کی کلائی پکڑی اور تشویشی انداز میں بولی :
”واہ جی واہ…ماہم چوہدری …یہ سر درد والےSymptoms تو نہیں ہیں… اندر کی بات بتاؤ“
”اندر کی بات…تم بھی کمال کرتی ہو۔ تم جاؤ میں آتی ہوں“ ماہم نے اپنی کلائی الفت سے چھڑوائی اور محبت سے عشال کے رخسار پر اپنا دائیاں ہاتھ رکھا۔ عشال کچھ سوچتے ہوئے ہال کے اندر چلی گئی اور ماہم اپنے گھر کی طرف۔


#…#
مزمل ظہر کی نماز سے فارغ ہوا تو مسجد اور گردونواح کا جائزہ لینے لگا۔ اُس نے فیکٹری کے احاطے میں کھلنے والے دروازے کو غور سے دیکھا۔ جس پر تالا لگا ہوا تھا۔
”صاحب…! تم کیا دیکھ رہے ہو۔یہ لو چائے پیو…“ گلاب خان نے چائے والی ٹرے ہاتھ سے بنی صف پر رکھ دی اور پھر سے کہنے لگا:
”تم چائے پیو میں وضو کرکے آتا ہے“
مزمل نے کچھ عجیب سی نظروں سے گلاب کو دیکھا جو سیکورٹی گارڈ کے یونیفارم میں تھا۔


مزمل نے چائے تب کپوں میں ڈالی جب گلاب وضو کرکے لوٹا۔ گلاب نے مزمل کی طرف دیکھ کر کہا :
”صاحب…! ہم سامنے والے اسکول کا سیکورٹی گارڈ ہے۔ یہ چائے ہیڈ ماسٹر محمود صاحب کے گھر سے آیا ہے۔ ہم کو معلوم ہے تم بارات کے ساتھ آیا ہے کھانا کھاتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا تمھیں…“ گلاب نے اچھی خاصی تفصیل مزمل کو دے دی تھی، جو چائے پینے کے لیے کافی تھی۔

مزمل نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا۔
”ویری نائس … یہ تیسرا کپ کس کے لیے ہے…؟“ مزمل نے چائے کی تعریف کے ساتھ ٹرے میں پڑے تیسرے کپ کے متعلق پوچھ لیا۔
”اپنا حکیم صاحب کے لیے“ گلاب نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے بتایا۔
”حکیم صاحب…؟“
”جنھوں نے بینش بیٹی کا نکاح پڑھوایا تھا…“
”اچھا وہ مولوی صاحب…“
”وہ مولوی نہیں ہے…وہ تو حکیم ہے…اِس مسجد کا مولوی تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے یہاں سے چلا گیا ہے۔

حکیم صاحب جماعت بھی کروا دیتا ہے اور نکاح بھی پڑھوا دیتا ہے اورپیسے بھی نہیں لیتا…“
گلاب نے چائے کا کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے اپنی بات پوری کی۔
”یہ فیکٹری … کیوں بند ہے…؟“ مزمل نے چائے کا آخری گھونٹ پیتے ہوئے سوال کیا۔
”سیٹھ کا مرنے کے بعد اُس کے بچوں نے فیکٹری چلانے کی بجائے جائیداد کی تقسیم پر جھگڑا شروع کر دیا۔ اِس فیکٹری کا عدالت میں کیس چل رہا ہے۔

میں پہلے اِسی فیکٹری میں سیکورٹی گارڈ تھا۔ صاحب !اذان کا وقت ہوگیا ہے“
گلاب نے اٹھتے ہوئے کہا پھر وہ مسجد کے اندر چلا گیا اور اذان پڑھنا شروع کر دی۔ اذان کے دوران ہی حکیم صاحب مسجد میں داخل ہوئے اور مزمل کی طرف دیکھا ۔ٹو پیس پہنے ہوئے گوری رنگت والا ایک نوجوان صف پر بیٹھا تھا۔ اذان کے تھوڑی دیر بعد گلاب باہر صحن میں آیا۔
”حکیم صاحب! اندر یا باہر؟“گلاب نے حکیم صاحب سے پوچھا۔


”باہر ہی ٹھیک ہے۔ کیوں مزمل بیگ صاحب !…؟گلاب یہیں…مصلیٰ لے آؤ“ حکیم صاحب نے دسمبر کی دھوپ کی قدر کی۔
”آپ میرا نام کیسے جانتے ہیں…“مزمل نے حیرانی سے پوچھا۔
”بیگ صاحب! بڑے آدمی سے پہلے اُسکا چرچا پہنچ جاتا ہے۔ آپ باسط کے سیٹھ ہو۔ دو فیکٹریوں کے مالک ہیں۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہتے ہو“
”حکیم صاحب! جماعت کا وقت ہو گیا ہے“ مہتاب نے اقامت کہی اور حکیم صاحب نے جماعت کروائی تین افراد نے باجماعت نماز ادا کی۔

گلاب نے دعا مانگی اور مسجد سے جاتے ہوئے کہا:
”حکیم صاحب! تمھارا چائے تھرماس میں ہے۔ یاد سے پی لینا“
حکیم صاحب کے چائے پینے کے دوران مزمل سے باتوں میں مشغول رہے۔ مزمل نے باتوں کے دوران اپنا موبائل دیکھا جس پر باذلہ کی کافی ساری مس کالز تھیں۔
”مجھے اجازت دیں“ مزمل نے حکیم صاحب سے اجازت لی اور باذلہ کو رِنگ بیک کی۔ وہ بات کرتے کرتے مسجد سے نکلا جب وہ مسجد کی سیڑھیاں اُتر رہا تھا، اُس کی نظر سامنے والے گھر کی دوسری منزل پر پڑی۔

ماہم چوہدری لوہے کی سلاخوں کے پیچھے کھڑکی میں کھڑی ہوئی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔
دونوں کی نظروں نے لمحوں میں صدیوں کا سفر طے کر لیا تھا۔
ماہم کھڑکی سے پیچھے ہٹ گئی اور مزمل شادی ہال کی طرف بڑھ گیا۔ صرف ایک نظر اُن دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
#…#
”یہ ماہم کہاں مر گئی ہے“ عشال ایڑھیاں اُٹھا اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔

اُس نے ماہم کو کال بھی کی تھی، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ اس لیے کہ ماہم کا موبائل اُس کی چھوٹی بہن مومنہ کے پاس تھا۔
دُلہن کی سہلیوں نے باسط کا گھٹنا ایک چنری سے باندھا ہوا تھا۔ سب رسموں میں ستارہ اور شمائل پیش پیش تھیں مزمل ہال میں داخل ہوا۔ باذلہ نے دیکھا تو وہ مزمل کی طرف لپکی۔
”مزمل بھائی! یہ رسمیں تو ہمیں کنگال کر دیں گی“ باذلہ نے جلدی سے اپنا دُکھڑا سنا دیا۔


”اِن کی لیڈر کون ہے…؟“ مزمل نے باذلہ کے کان میں ہولے سے پوچھا۔ باذلہ نے شمائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا:
”جس نے ریڈ چولی پہنی ہے اور سر پر جوڑا بنایا ہے“
”کمینیو…! دودھ پلائی کی طرح دس پر ہی راضی مت ہو جانا اِس بار پورے بیس ہزار لینے ہیں“ شمائل نے اپنا ارادہ بتایا۔
مزمل لڑکیوں کی طرف چل پڑا۔ سب لڑکیاں شور مچا رہی تھیں :
 ” بیس ہزار … بیس ہزار“ مزمل نے ہولے سے چلتے چلتے شمائل کے کان کے پاس آکر کہا :
”حسن کی ملکہ…! روپے مانگتی ہوئی اچھی نہیں لگتی“
شمائل نے سُنا تو اُس کا چہرہ سرخ گلاب کی طرح خوشی سے لال ہوگیا۔

تعریف کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ شمائل کو بار بار مزمل کے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔
تعریفی جملے نے چہرے پر تو اثر کیا ہی تھا، ساتھ ساتھ شمائل کی زبان بھی بند کر دی تھی۔ اب اُس کی آنکھیں مزمل پر ہی مرکوز تھیں اور وہ زبان کا کام آنکھوں ہی سے لے رہی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے میدان جنگ میں دشمن فوج کی رانی کو قتل کر دیا جائے۔
اب مزمل باسط کے پاس کھڑا تھا۔

اُس نے سب لڑکیوں کی طرف ایک نظر ڈالی پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا :
”دیکھیں جی…! جس طرح خوشبو کی جگہ بدبو نہیں لے سکتی اخلاق کی جگہ بداخلاقی نہیں ہو سکتی بالکل اِسی طرح محبت کی جگہ دولت کبھی نہیں لے سکتی۔ آپ لوگوں نے باسط کو محبت سے خرید لیا ہے۔ اُس کی با رات کو آپ لوگوں نے اتنا پیار دیا ہے کہ اِس بارات کے ساتھ آیا ہوا ہر فرد اِس الفت کو ساری زندگی یاد رکھے گا۔

آپ کے خلوص آپ کی محبت اور مہمان نوازی کی قیمت تو ادا نہیں کی جا سکتی۔ ہم تو آپ کی محبتوں کا قرض اُتار نہیں سکتے۔ کیوں مس! میں نے ٹھیک کہا نا…“
مزمل نے انگلی کے اشارے سے تقریر کے آخر میں شمائل کو ایک بار پھر مخاطب کیا۔ شمائل پر دوسری ضرب لگی۔رانی کے غرور کو تعریف کی تلوارنے خیالوں کی وادی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سُلا دیا تھا۔


”جی…جی…آپ سرخ چولی والی“ مزمل نے مبالغہ بھی دور کر دیا۔ ماہم بھی ہال میں دبے پاؤں آن پہنچی۔ وہ آکر عشال کی بغل میں کھڑی ہو گئی تھی۔
شمائل گُم سُم آگے بڑھی اور اپنی سہیلیوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے باسط کے قدموں کے پاس بیٹھی پھر وہ چُنری کھول کر کھڑی ہو گئی۔ شمائل نے وہ چنری مزمل کو ایسے پیش کی جیسے ہتھیار ڈالے جاتے ہیں۔ چُنری دیتے ہوئے شمائل نے جان بوجھ کر مزمل کے ہاتھ کو مَس کیا۔

دونوں کے ہاتھوں کے اوپر چنری تھی۔ اِس لیے کسی کے دیکھنے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ البتہ شمائل کا یہ یوٹرن سب نے دیکھا بھی اور نوٹ بھی کیا۔
”اُلّو کی پٹھی“ ستارہ نے دانت پیستے ہوئے منہ میں کہا ۔
”شیدائن نہ ہو تو“ ایک کونے سے دُلہن کی سہیلی بولی۔ عشال نے اِس سین سے نظر ہٹائی تو اپنی بغل میں ماہم کو پایا۔ اُس نے ساری کہانی پر تبصرہ کرنے کی بجائے خالی اُسی سین پر اپنی رائے دی :
”تیری ہونے والی نند کو تو…میرے ریلٹو نے کلین بولڈ کر دیا ہے“ عشال کے پورے جملے میں صرف ماہم کو تیری ہونے والی نند یاد رہا۔

ماہم محبت کی معراج کا رستہ چھوڑ کر معراج کے گاؤں کی طرف جانے والے رستے پر کھڑی تھی، جس کی منزل شمائل کا بڑا بھائی چوہدری شمعون تھا۔
#…#
رخصتی کا وقت آن پہنچا بینش نے خوشی کے ساتھ باسط کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اب وہ اپنے پیا کے گھر جا رہی تھی ۔ اِس دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا ،مزمل نے باذلہ کو بتایا کہ وہ ہال ہی میں نماز والی جگہ پر نماز پڑھ کر آتا ہے۔

جب وہ نماز پڑھ کر لوٹ رہا تھا، اُسی لمحے ماہم اپنی سہیلی عشال کی کلائی تھامے واش روم سے لوٹ رہی تھی۔ وہ جلدی سے جلدی رخصتی والی جگہ پر پہنچنا چاہتی تھی۔ کوریڈور سے گزرتے ہوئے اُس کی ٹکر مزمل سے ہو گئی۔ ماہم آگے تھی اورعشال پیچھے ماہم زمین پر گرجاتی اگر مزمل کے مضبوط بازو اُسے تھام نا لیتے وہ گرنے سے تو بچ گئی لیکن اُس کے دائیں ہاتھ کی ساری ہری چوڑیاں ٹوٹ گئیں۔

جس کی وجہ سے اُس کی کلائی پر کافی ساری خراشیں آگئی تھیں… عشال نے اپنا موبائل نکالامزمل کے بازوؤں کے سہارے ماہم لٹکی ہوئی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو قریب سے جی بھر کے دیکھا۔ عشال اُن دونوں کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہی تھی۔ چند منٹ کے بعد عشال ہی بولی :
”مزمل…! تھینکس… دراصل غلطی ہماری تھی“
”تم کون ہو…پہلے بھی تم نے مجھے ایسے بلایا تھا…جیسے جانتی ہو“
”جانتی تو ہوں! وہ بھی بچپن سے … خیر چھوڑو وہ باتیں … میں عشال انصاری یہ میری دوست ماہم چوہدری“
ماہم کو عشال کی باتیں سُن کر ہوش آیا کہ وہ تو مزمل کی بانہوں میں ہے۔

اُس نے جلدی سے اپنی ہری فراک اور چوڑی دار پاجاما درست کیا اور شرماتے ہوئے آگے کی طرف بڑھ گئی۔ مزمل نے آگے بڑھتی ہوئی ماہم کو دور تک جاتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد مزمل نے ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑے اُٹھائے انہیں رومال میں رکھا اور چل دیا۔
”وہ نظر نہیں آرہا“ شمائل نے گردن اُٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”جس نے تمھارا فیوز اُڑایا تھا“ ستارہ نے شرارتی انداز سے پوچھا۔


”ہاں…ہاں…وہی“ شمائل نے بیتاب ہو کر جواب دیا۔
”نظر تو مجھے بھی نہیں آرہا…ارے وہ رہا…ارے یہ کیا…؟ہاتھ میں تسبیح“ ستارہ نے معصومیت سے کہا۔
”اب تو اُس نے کوٹ کی جیب میں ڈال لی ہے“
”کرکٹ میچ کی کمنٹری چھوڑو… اور دُلہن کی کار کی طرف چلو… وہ اُسی طرف ہی جا رہا ہے“
”دُلہن کی نہیں…اُس کی خود کی کار ہے“ شمائل نے سنجیدگی سے اطلاع دی۔


”ہاں…ہاں…خود کی کار کی طرف ہی جا رہا ہے… تم یہاں سے تو چلو“
دُلہا دُلہن گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ بلقیس بی بی اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی… مزمل بیگ کا دوسرا ڈرائیور حنیف سفید مرسڈیز ملن شادی ہال کے سامنے ہی لے آیا تھا۔ باذلہ اور حنیف باہر کھڑے ہوئے مزمل کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی مزمل آیا حنیف نے دروازہ کھولا مزمل کار میں بیٹھنے لگا اُسی سمے اُس کو سیڑھیوں سے اوپر شادی ہال کے مین دروازے سے کچھ آگے ماہم کھڑی ہوئی نظر آئی۔

ماہم کا بایاں ہاتھ اُس کی دائیں کلائی پر تھا جس پر چند خراشیں آئی تھیں۔
ماہم کی بھوری بلی جیسی آنکھیں اُداس تھیں۔ اِس کے برعکس شمائل کی آنکھوں میں چمک تھی۔ عشال نے ایک نظر ماہم کو دیکھا پھر شمائل پر نظر ڈالی اور آخر میں کار ڈرائیو کرتے ہوئے مزمل کو دیکھا۔ کار عشال کے پاس سے گزر کر گئی تھی۔




Episode #3

Mann K Mohally Main Episode #3 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Mann K Mohally Main Zeerak Zann Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment