Pages

Tuesday, December 13, 2022

Old Lady | Emotional News | Incident Of 5 June , 1992 in Sindh Pakistan| Real Incident/ | Story

Old Lady | Emotional News | Incident Of 5 June , 1992 in Sindh Pakistan| Real Incident/ | Story 


"مائی جندو"

 یہ 5 جون 1992 کو ٹنڈو بہاول سندھ میں پیش آنے والا ایک سچا واقع ہے۔ 

5 جون 1992 کو تپتی دھوپ میں پاکستان آرمی کے اس وقت کے ایک حاضر سروس میجر، میجر ارشد جمیل تیرہ فوجی اہلکاروں کی ایک ٹیم کے ہمراہ ٹنڈو بہاول سندھ کے ایک گاؤں جاتے ہیں اور وہاں چھاپہ مار کر نو (9) سندھی ہاریوں کو گرفتار کرتے ہیں۔ 

گرفتاری کے بعد ان سب کو ہندوستان کی خفیہ ایجنسی (را) کے ایجنٹ بتا کر ایک دریا کے کنارے لے جا کر نو کے نو ہاریوں کو قتل کر دیتے ہیں اور لاشیں وہی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ 

گاؤں والوں کو پتہ چلتا ہے کہ دریا کے کنارے نو لاشیں پڑی ہیں تو وہ سب لاشوں کو اٹھا کر گاؤں لے جاتے ہیں اور پورے گاؤں میں ایک کہرام مچ جاتا اور ہر آنکھ اشکبار ہوتی ہے۔ 

صرف دو آنکھیں ہی ایسی ہوتی ہیں جن میں آنسوؤں کا ایک قطرہ تک نہیں ہوتا اور یہ آنکھیں ہیں گاؤں کی ایک بوڑھی عورت مائی جندو کی جو خشک آنکھوں اور کسی تاثر کے بغیر بلکل خاموش اپنے دو جوان بیٹوں "بہادر" اور "مٹھار" کی لاشوں کے ساتھ اپنے داماد "حاجی اکرم کی لاش کو دیکھ رہی ہے۔ 

لاشوں کے ارد گرد کھڑی گاؤں کی ساری عورتیں رو رہی ہیں جن میں مائی جندو کی بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ لیکن مائی کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں بہہ رہا گاؤں کی عورتیں مائی جندو کو یوں خاموش دیکھ کر اسے دھکے دے دے کر رلانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن مائی جندو کی آنکھ سے پھر بھی آنسو نہیں نکلتا۔ جنازہ اٹھنے تک پورا گاؤں اور مائی جندو کی بیٹیاں پوری کوشش کرتے ہیں انہیں رلانے کی لیکن سبکو ناکامی ہوتی ہے۔ 

جیسے ہی جنازے اٹھتے ہیں مائی جندو اٹھ کر اپنا ڈوپٹہ اتار کر کس کر اپنے کمر پہ باندهتی ہے اور اپنی دونوں بیٹیوں کو لیکر اپنے تینوں بیٹوں کے لیے انصاف ڈھونڈنے نکل پڑتی ہے۔ یاد رہے یہ 1992 ہے جب سوشل میڈیا تو دور کی بات ہے پی ٹی وی کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کا بھی کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے گاؤں کے لوگ اور مائی کے عزیز و اقارب انکو یہ کہتے ہوئے صبر کرنے کا کہتے ہیں کہ وہ لوگ بہت طاقت ور ہیں اپنا معاملہ اللّه پہ چھوڑ یں لیکن مائی جندو قسم کھاتی ہے کہ میں اپنے بیٹوں کے لیے انصاف لے کے رہوں گی۔ 

مائی جندو بیٹیوں کے ساتھ در در کی ٹھوکریں کھا کر کراچی پہنچتی ہے اور پھر دوسرے دن کسی طرح کراچی پریس کلب پہنچ کر اپنے بیٹوں سمیت نو بے گناہ ہاریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا سارا واقعہ سناتی ہیں۔ کہ میجر ارشد جمیل نے زمین کے کسی تنازع کی وجہ سے کس طرح نو بے گناہ نوجوانوں کو را کا ایجنٹ بتا کر بے دردری سے قتل کیا۔ 

اصل واقعہ سن کر کچھ بہادر انویسٹیگیٹیو جرنلسٹ جاگ جاتے ہیں اور وہ مائی جندو کی کہانی کو اپنے اخباروں میں شائع کر دیتے ہیں اور یوں کرتے کرتے اس ظلم کی خبر پورے ملک میں پھیل جاتی ہے اور مائی جندو کے حق میں جگہ جگہ سے آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور کرتے کرتے یہ آوازیں اس وقت کے وزیر اعظم اور آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کو پہنچ جاتی ہے اور چیف آف آرمی اسٹاف میجر ارشد جمیل اور ان کے ساتھ شریک تیرہ فوجی اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا حکم دیتے ہیں اور کورٹ مارشل کے نتیجے میں 29 اکتوبر 1992 کو میجر ارشد جمیل کو سزاے موت ہوتی ہے اور تیرہ اہلکاروں کو عمر قید کی سزا۔ 

لوگ مائی جندو کو انصاف ملنے پر شکر ادا کر کے خوش ہو کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ 

پہلے میجر ارشد جمیل چیف آف آرمی اسٹاف کو اپنی سزا کے خلاف اپیل کرتے ہیں جو کہ 14 ستمبر 1993 کو مسترد ہو جاتی ہے اس کے بعد وہ صدر پاکستان فاروق لغاری کو اپیل کرتے ہیں جو کہ 1995 کو مسترد ہو گئی۔ اس کے بعد میجر ارشد جمیل کے بھائی اس کی سزا کے خلاف اپیل لے کر سپریم کورٹ جاتے ہیں جہاں جسٹس سعیدالزمان صدیقی اسکی سزائے موت روکنے کے لیے حکم امتناع جاری کرتے ہیں اور اسکی سزاے موت پر عمل در آمد رک جاتا ہے اور کیس کو لٹکا دیا جاتا ہے۔ 

مائی جندو یہ دیکھ کر ایک بار پھر بیٹیوں کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اور ایک دن مائی جندو کی دونوں بیٹیاں انصاف میں تاخیر ہونے کی وجہ سے حیدر آباد پریس کلب کے سامنے جا کر اپنے جسموں پر تیل چھڑک کر خود کو آگ لگا دیتی ہیں جہاں سے انکو نازک حالت میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے لیکن وہ بچ نہ سکی اور اپنے بھائیوں کے لیے طاقتور لوگوں کے خلاف انصاف  مانگتے مانگتے جان دے دی۔ 

پورے ملک میں ایک بار پھر کہرام مچ جاتا ہے اور اس بار انصاف کے لیے اتنے زور سے آواز اٹھتی ہے کہ 28 اکتوبر 1996 کو طاقت کی دیواریں مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے آگے ڈھیر ہو جاتی ہیں اور میجر ارشد جمیل کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔ 

مائی جندو کو جب حیدر آبادسنٹرل جیل کے پھانسی گھاٹ لایا گیا تو سامنے تختہ دار پر اس کے گاؤں کے نو بیٹوں کا قاتل میجر ارشد جمیل کھڑا تھا۔ دار کا تختہ کھینچا گیا تو میجر ارشد جمیل کا جسم دار پر جھول گیا اور عین اسی وقت سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی آنکھوں سے بیٹوں کی موت کے بعد پہلی بار آنسو نکلا اور یوں مائی جندو نے کمزور ہونے کے باوجود ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا پوری قوم کو ایک درس اور ہمت دی ۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment