Pages

Tuesday, December 20, 2022

Zeerak Zann Episode #4 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels | Sad _ Emotional Novel

Zeerak Zann Episode #4 By Shakeel Ahmed Chouhan



Zeerak Zann Episode #4 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels | Sad _ Emotional Novel

 زِیرک زَن-قسط نمبر 4

Episode #4
اگلے دن راوی کلفٹن شاہدرہ کے علاقے میں عترت کے گھر پر رونق تھی۔ عترت کے پاس چھ مرلے کا ایک گھر تھا۔ جس کے گراؤنڈ فلور پر اُس نے اپنی بوتیک بنا رکھی تھی۔ دوسری منزل پر اُس کی رہائش تھی اور تیسری منزل پر سلائی کا یونٹ تھا۔ چوتھی منزل پر ایک کمرہ اُس کے آگے برآمدہ باقی چھت پھول والے پودوں کے گملوں سے بھری تھی۔ 
دوسری منزل پر محلے کے آٹھ مردوزن کے ساتھ ساتھ ضرار کی ملازمہ اور اُس کا ڈرائیور تھا۔

میاں جی کے ڈیرے کے دو افراد ایک نکاح رجسٹرار، عترت کی ایک عمر رسیدہ خادمہ سب موجود تھے ، جو سب صوفے اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ عترت نے نیا مگر سادہ لباس پہناہوا تھا۔ ضرار نے ٹوپیس پہن رکھا تھا۔ وہ دونوں تین سیٹوں والے صوفے پر اپنے درمیان جگہ چھوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔

میاں جی ڈبل سیٹ والے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کی بغل میں رجسٹرار تھا۔

انھوں نے نکاح پڑھوانا شروع کیا۔ جب انھوں نے کہا : ” حق مہر سات کروڑ معجل کے عوض“ تو سب افراد کے کان کھڑے ہو گئے۔ سب نے اپنے اپنے تعلق والے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ نکاح کے بعد مبارک باد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نکاح رجسٹرار جب ضرار سے سائن کروانے کے بعد عترت کے پاس آیا تو عترت نے سائن کرتے ہوئے ہولے سے اُسے کہا : ”تایا جی ! کمپیوٹرائزڈ نکاح فارم ایک دو دن میں بجھوا دیجیے گا۔

“ ”فکر نہ کرو بیٹی ! میں خود دے کر جاؤں گا۔“ رجسٹرار نے بڑے خلوص سے بتایا۔ ضرار نے اپنے ڈرائیور کو اشارہ کیا۔ اُس نے سب افراد میں مٹھائی اور بِد تقسیم کر دی۔ محلے والوں کے جانے کے بعد عترت نے میاں جی سے تھوڑی جھجھک کے ساتھ ہولے سے پوچھا : ” میاں جی ! میں ضرار صاحب کے ساتھ جا سکتی ہوں۔“ ”محرم کے ساتھ جانے کے لیے کسی میاں جی کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔

“ میاں جی نے بتایا۔ ” چلیں پھر ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں۔“ عترت نے کہا۔ ” ہم چلے جائیں گے بیٹی ! آپ جاؤ۔“ میاں جی صوفے سے اُٹھتے ہوئے بولے تھے۔ اُن کی آنکھوں میں چمک اور لہجے میں مٹھاس تھی۔ میاں جی نے دونوں ہاتھوں سے عترت کے سر پر پیار دیا۔ میاں جی کے ادب میں سب کھڑے ہو گئے۔ ”میاں جی ! ساجد آپ کو چھوڑ کر آئے گا۔“ ضرار نے کہا۔ میاں جی نے ساجد کی طرف دیکھا۔

ساجد ڈرائیور تابعداری کے ساتھ مسکرایا۔ ”چلو پھر ساجد بیٹا ! “ میاں جی یہ بولنے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نیچے چلے گئے۔ ساجد نے سوالیہ نظروں سے ضرار کی طرف دیکھا۔ ضرار نے اُسے حکم دیا : ”تم میاں جی کو چھوڑنے کے بعد گھر چلے جانا۔“ یہ سنتے ہی ساجد میاں جی کے پیچھے بھاگا۔ ”اور میں صاحب … ؟“ ملازمہ نے جلدی سے پوچھا۔ ”ظاہر ہے تم بھی گھر ہی جاؤ گی۔

“ ضرار نے روکھے لہجے میں کہا۔ عترت نے ضرار کی طرف حیرت سے دیکھا پھر اپنی خادمہ کی طرف دیکھ کر بڑے مہذب انداز کے ساتھ کہنے لگی : ” بی بی ! میں آپ کے داماد کے ساتھ جا رہی ہوں۔“ بی بی نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ ”ضرار صاحب !“ جب ضرار پوری طرح سے عترت کی طرف متوجہ ہو گیا پھر وہ بولی : ”یہ بی بی خانم ہیں۔ میرے گھر کی کرتا دھرتا۔“ بی بی خانم یہ سنتے ہی باغ باغ ہو گئی۔

” بی بی پیار دیں نا ! “ عترت نے کہا۔ بی بی خانم نے بڑی محبت کے ساتھ ضرار کے کندھے پر اپنا دست شفقت رکھا۔ ”بی بی آپ نہیں مجھے پیار دیں گی۔ “ عترت نے ضرار کی ملازمہ سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ملازمہ نے ضرار کی طرف دیکھا۔ ضرار نے اشارے سے اجازت دے دی۔ ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے عترت کے سر پر ہاتھ پھیر دیا۔ ”بی بی خانم ! اپ ضرار صاحب کو نیچے لے جائیں ہم دونوں آتے ہیں۔

“ خانم ضرار کو لے کر نیچے چلی گئی۔ ”کیا نام ہے آپ کا۔“ عترت نے ضرار کی ملازمہ سے پوچھا۔ ” شاکرہ “ ” آپ میرے ساتھ آئیں۔“ عترت نے ایک کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ### اپنے محلے کی گلی میں سے مین سڑک کی طرف جاتے ہوئے عترت اپنے شوہر کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے بڑے وقار کے ساتھ چل رہی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بڑی سی چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔

شاکرہ اُن دونوں کے پیچھے عترت کا بیگ اُٹھائے ہوئے چل رہی تھی۔ محلے کی عورتیں کچھ آدھے کواڑ کھولے ہوئے انھیں دیکھ رہی تھیں۔ کچھ گھر کی چوکھٹوں پر کھڑی تھیں اور بہت ساری گلی میں مردوں کے درمیان کھڑی ہوئیں اس نو بیاہتا جوڑے کو دیکھتے ہوئے سرگوشیوں کے انداز میں تبصرے بھی کر رہی تھیں : ” لڑکا تو اتنا خوبصورت نہیں ہے۔“ ضرار بد صورت نہیں تھا۔

بس عترت کے سامنے اُس کی خوبصورتی دب سی گئی تھی۔ ”عترت نے مال دیکھا ہے لڑکا نہیں۔“ ”بے چاری کب تک درزن بنی رہتی۔“ ”لنگور لے کر جا رہا ہے حور کو…“ ایک دل جلے نے کہا۔ ”میاں جی نے کروایا ہے یہ رشتہ۔“ دوسرے ٹھرکی نے بتایا۔ ”ہائے میں کیوں نہ میاں جی کا مرید بن گیا۔“ لڑکوں کی ٹولی میں سے ایک ساتھ قہقہے گونجے۔ ہجوم میں سے ایک بوڑھی خاتون عترت کی طرف بڑھی عترت کو پیار دیتے ہوئے ہولے سے اُس کے کان میں بولی : ”ماں کی طرح مت کرنا اس بے چارے کے ساتھ۔

“ ضرار نے سوالیہ نظروں سے عترت کی طرف دیکھا۔ عترت کے چہرے پر حجاب تھا مگر اُس کی نظروں میں اعتماد تھا۔ وہ مین سڑک کے پاس پہنچ گئے۔ مین سڑک پر ڈرائیور ضرار کی کار کے پیچھے اوراپنی ڈبل کیبن کے آگے کھڑا ہوا تھا۔ میاں جی اور اُن کے ساتھی ڈبل کیبن کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ضرار یہ دیکھ کر بھڑک اُٹھا : ”میاں جی کو پیچھے کیوں بٹھایا ہے…؟“ ”سر انھوں نے کہا تھا اپنی ماں کو اپنے ساتھ بٹھاؤ ! “ ساجد نے بڑی عاجزی سے بتایا۔

عترت نے شاکرہ کو اشارہ کیا کہ وہ آگے بیٹھے۔ شاکرہ اُس بیگ کو گود میں رکھتے ہوئے اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ”ساجد ! آپ جاؤ۔“ عترت نے مہذب انداز میں حکم دیا۔ ”جی بیگم صاحبہ ! “ ساجد نے تابعداری سے کہا اور گاڑی لے کر وہاں سے چلا گیا۔ ”میں تم اور میرا ملازم آپ ؟“ ضرار نے احتجاجی لہجے میں کہا تھا۔ ”اب بھی ہم دونوں کا کچھ نہیں بگڑا… تمھاری رقم محفوظ ہے اور میری عزت ! “ عترت نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔

سڑک سے گزرتے ہوئے لوگ رُک رُک اس جوڑے کو دیکھ رہے تھے۔ ضرار نے دیکھا تو وہ کہنے لگا : ”کار میں بیٹھو۔“ ضرار نے کوٹ کی جیب سے ریموٹ نکال کر Audi کو unlock کیا۔ عترت اگلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ضرار نے کار کی ڈگی میں سے ایک کالا لیدر کا بیگ نکالا پھر وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ”یہ تمھارا حق مہر۔“ ضرار نے وہ بیگ عترت کو دیتے ہوئے بتایا۔

عترت نے بیگ پکڑ کر پچھلی سیٹ پر رکھ دیا۔ ضرار نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا : ” سات کروڑ کی گنتی نہیں کرو گی۔“ عترت نے اپنے رخسار سے حجاب ہٹایا۔ نظر بھر کے ضرار کو دیکھا پھر میٹھی مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے بولی : ” راؤ ضرار اعتماد کیا ہے تم پر !“ ضرار حریص نظروں سے عترت کو دیکھے جا رہا تھا۔ ”یہ غیر مناسب ہے…؟“ عترت نے بتایا۔ ”کیا …؟“ ضرار نے پوچھا۔

”سڑک کنارے ! “ ”اوہ …“ ضرار نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔ جب کار چل پڑی تو اُس نے پوچھا : ” جانا کہاں ہے …؟“ ”شوکت خانم“ ”شوکت خانم… ؟“ ضرار نے حیرانی سے کہا۔ ” شوکت خانم کینسر ہاسپٹل!“ عترت نے زور دے کر بتایا۔ ”میں تو سمجھا تھا تم میرے لیے آئی ہو۔“ ضرار نے عترت کی طرف دیکھتے ہوئے میٹھی خفگی کے ساتھ کہا تھا۔ ”سامنے دیکھ کر گاڑی چلاؤ!“ عترت نے میٹھی زبان میں کہا۔

اتنے سے ہی، ضرار خوش ہو گیا تھا۔ تقریباً تیس پینتیس منٹ بعد ضرار نے شوکت خانم کے مین گیٹ سے اندر داخل ہو کر کار پارکنگ میں کھڑی کر دی۔ عترت نے پچھلی سیٹ سے وہ بیگ اُٹھاتے ہوئے ضرار سے کہا : ”تم رکو میں تھوڑی دیرمیں آتی ہوں۔“ عترت کار سے اُتر کر فنانس ڈپارٹمنٹ کی طرف چل دی۔ ضرار نے اپنی سیٹ کے نیچے سے ایک شیشے کی بوتل نکالی اور اُسے منہ لگا کر اُس میں سے گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔

پندرہ بیس منٹ بعد جب ضرار نے عترت کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو اُس نے وہ بوتل پھر سے اپنی سیٹ کے نیچے رکھ دی۔ واپسی پر عترت کے ہاتھ میں لیدر کا بیگ نہیں تھا۔ وہ آکر ضرار کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ عترت نے لمبی سانس اندر کو لی تو ضرار فٹ سے بول پڑا : ” تم نے تو بتایا تھا کہ شوکت خانم والوں نے کہا ہے کہ تم باہر سے علاج کرواؤ۔“ عترت نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : ” میں جھوٹ سے بچنے اور وعدہ پورا کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

“ ضرار کی آنکھیں گول گول گھومنے لگیں، اُس نے پوچھا : ” میں نے کون سا وعدہ توڑا ہے…؟“ ”تم نے ہمیشہ مجھے آپ کہنے کا وعدہ کیا تھا ! “ ضرار نے نظر بھر کے عترت کو دیکھا پھر اُس کے گلے لگ گیا۔ عترت نے کوئی مزاحمت نہیں کی، کافی دیر بعد وہ عترت سے الگ ہوا۔ ” اس طرح تو سات کروڑ پورا نہیں ہوگا۔ تم مجھے ہوٹل بھی لے جا سکتے ہو اور گھر بھی۔

“ عترت نے یہ بولنے کے بعد ارد گرد دیکھا۔ اُن کے آگے پیچھے کاریں ہی کاریں تھیں۔ ضرار کے چہرے کے خدوخال بدل گئے۔ عترت ونڈ اسکرین سے شیشے کے پار دیکھنے کے بعد بولی : ”صرف سامنے والی اسکرین سے اندر نظر پڑتی ہے۔ اپنی بیوی کے پردے کا پورا پورا خیال رکھا ہے تم نے۔ “ ”شٹ اَپ “ ضرار جذباتی ہو گیا۔ ” تم تو انگلش بھی بول لیتے ہو… بولو گے کیوں نہیں میں میٹرک پاس ہوں اور تم انٹر فیل۔

“ عترت نے سرخ آنکھوں کے ساتھ بڑی سنجیدگی سے بتایا۔ ضرار نے اسے جواب دینے کی بجائے کار اسٹارٹ کی اور ہسپتال سے نکل کر کار سڑک پر ڈال دی۔ عترت نے اپنی آنکھیں بند کر کے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ سارے رستے ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ ڈیفنس گھر کے باہر پہنچ کر ضرار نے کار کا ہارن بجایا فٹ سے گارڈ نے گیٹ کھول دیا۔ ” میرا گھر۔

“ ضرار نے عترت کے کان کے پاس اپنے ہونٹ لے جاتے ہوئے بتایا۔ عترت آنکھیں کھولتے ہوئے بولی : ” ہمارا گھر !“ ضرار نے لمحہ بھر سوچا، پھر وہ کار کا دروازہ زور سے مارتا ہوا باہر نکل گیا۔ عترت آرام سے کار سے اُتری۔ گھر کے مرکزی دروازے سے شاکرہ تیز تیز چلتی ہوئی کار کی طرف آ رہی تھی۔ ضرار اور عترت کار کے ساتھ مخالف سمتوں میں کھڑے تھے۔ شاکرہ یہ دیکھ کر اُن سے دور ہی رک گئی۔

عترت نے ضرار کی طرف جاتے ہوئے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا : ” چلو … مجھے میرا گھر دکھاؤ۔“ ضرار معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مسکرایا۔ ضرار گھر دکھانے کی بجائے فسٹ فلور پر عترت کو اپنے بیڈ روم میں لے گیا۔ بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی ضرار نے لاک لگایا اور عترت کو اپنی بانہوں کے شکنجے میں کس کے چومنے لگا۔ ضرار نے عترت کی چادر اُتار کر فرش پر پھینک دی۔

عترت بت بنی کھڑی رہی، جب ضرار نے عترت کو جذبات سے ماورا پایا تو اُس نے غصے سے عترت کو دھکا دے دیا۔ عترت لیدر کے صوفے پر جا گری۔ اُسے کوئی چوٹ نہیں لگی، تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔ عترت کے قہقہے سن سن کر ضرار کو غصہ آ رہا تھا۔ اُس نے دانت پیستے ہوئے پوچھا : ” کیوں پاگلوں کی طرح ہنسے جا رہی ہو۔“ عترت نے دو تین لمبی سانسیں لیں پھر ارد گرد دیکھا۔

لیدر کے صوفے کے ساتھ شیشے کی میز پر پانی سے بھرا جگ اور ایک گلاس پڑا تھا۔ عترت نے گلاس میں پانی ڈالا اور تین سانس لے کر سارا پانی پینے کے بعد خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے بتانے لگی : ” میں جتنی دکھی ہوتی ہوں، اُتنے ہی زور سے ہنستی ہوں۔“ ”مجھ سے شادی کر کے تم دکھی ہوئی ہو!“ ضرار نے معنی خیز انداز میں پوچھا۔ ”دُکھ شادی نے نہیں۔ تمھارے رویے نے دیا ہے۔

“ عترت نے گیلی آواز میں بتایا۔ ” بیوی ہو تم میری“ ضرار نے حق جتاتے ہوئے اطلاع دی۔ ”اسی لیے میں نے تمھیں کچھ نہیں کہا۔“ عترت نے سرخ آنکھوں کے ساتھ ضرار کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بتایا تھا۔ ضرار نے نظریں چراتے ہوئے بات بدلی : ” کچھ کھاؤ گی … ؟“ عترت صوفے سے اُٹھتے ہوئے بولی : ” پہلے تم اپنی بھوک تو مٹا لو۔“ عترت اپنے مجازی خدا کے سامنے کھڑی تھی۔

عترت نے سنجیدگی سے پوچھا : ”ابھی ہوس تو پوری نہیں ہوئی ہو گی تمھاری …؟“ ضرار نے عترت سے منہ موڑتے ہوئے کہا : ”کتنی بے شرم ہو تم۔“ عترت نے ضرار کے سامنے آتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا : ” میں ہوں بے شرم… ؟“ ”تمھاری ماں بھی گھر سے بھاگ گئی تھی !“ ضرار نے طعنہ دیا۔ ” یہ میرے کہنے پر ہی میاں جی نے تمھیں بتایا تھا۔“ عترت کی یہ بات سن کر ضرار کو حیرت کا شدید دھچکا لگا تھا۔

ضرار نے عترت کو دونوں کندھوں سے تھامتے ہوئے پوچھا : ” تم ثابت کیا کرنا چاہتی ہو … ؟“ ”فی الحال تو اپنے شوہر کے ساتھ جینا چاہتی ہوں۔“ عترت نے پگھلتے ہوئے لہجے میں بتایا۔ ضرار نے غور سے عترت کو دیکھا پھر سوال کیا : ” میرے ساتھ … ؟“ ”ہاں … “ عترت نے بڑی حسرت سے بتایا۔ ضرار نے عترت کو صوفے پر بٹھا دیا اور خود کرسی لے کر اُس کے مدمقابل بیٹھ گیا۔

عترت بڑی شائستگی سے گویا ہوئی : ” ضرار صاحب ! مرد جسم کا پجاری ہے اور عورت اپنی خواہشوں کی“ ضرار نے یہ بات سننے کے بعد لمحہ بھر سوچا پھر کہنے لگا : ” تم بھی پجارن … ہو کیا ؟“ ”ہاں نا… میری خواہش ہے … میں ایک لمبی زندگی جی کر اپنے شوہر کے ساتھ وفا کی ایک مثال قائم کر جاؤں…؟“ عترت نے خاموشی اختیار کی، تو ضرار نے فوراً پوچھ لیا : ” وفا کی مثال … ؟“ ”ضرار صاحب ! بے وفاؤں کی اولاد کو وفا کی مثال قائم کرنی پڑتی ہے۔

“ ” تم نے مجھ سے شادی کیوں کی … ؟“ ضرار نے پوچھا۔ ”میں تمھارے والدین کی پسند ہوں۔“ عترت کے منہ سے یہ سنتے ہی ضرار کے منہ سے تذبذب کے عالم میں نکلا : ”کیا مطلب … ؟“ ”وہ لڑکی میں ہی ہوں حس کے ساتھ شادی کرنے سے تم نے انکار کیا تھا۔“ ضرار کا رنگ فق ہو گیا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑتے ہوئے کرسی سے اُٹھ کر کہنے لگا : ” بھولنا چاہتا ہوں میں اُس رات کو … بھولنا چاہتا ہوں۔

“ وقت کا دھارا دوبارہ بہنے لگا۔ ضرار کا دل دہل گیا، وہ اپنے اوسان مجتمع کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر اُسے کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ وہ ٹیرس کا دروازہ کھول کر اُدھر چلا گیا پھر لوہے کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ عترت بیڈ روم کے اندر سے ہی اُسے دیکھ رہی تھی۔ زندگی کی ڈگر ضرار کو چار مہینے پیچھے لے گئی۔
#####
Episode #4
اگلی قسط کے لئے لنک پر کلک کر کے ہماری ویبسائٹ وزٹ کیجئے گا

مزید درد _ جدائی ناول پڑھنے کے لئے نیچے تصویر پر کلک کریں
*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

زیرک زن ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Zeerak Zann Mann K Mohally Main Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment