Pages

Monday, January 9, 2023

Mann K Mohally Main Episode #15 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels

Mann K Mohally Main Episode #15 By Shakeel Ahmed Chouhan




Mann K Mohally Main Episode #15 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels

من کے محلے میں



Episode #15
ممتاز بیگم دن چڑھے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد مزمل کی فیکٹری کو دیکھنے گئیں۔ اُس کے بعد اپنی پوری ٹیم کے ساتھ لاہور کو روانہ ہوگئیں۔
دونوں گھرانوں کے درمیان سالوں سے پڑی برف پگھل گئی۔ اب حکیم صاحب نے بھی ماڈل ٹاؤن آنا جانا شروع کر دیا تھا۔عشال کے ضروری کاغذات تیار کروا کر حارث مانچسٹر واپس جا چکا تھا۔
باذلہ اور مومنہ دونوں کو فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔

اُن دونوں میں گہری دوستی بھی ہوگئی۔
شمائل کی ملکوال میں شادی کے بعد وہ شرافت کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی۔
ستارہ کی ماں بھی اپنی بیٹی کے لیے کسی اچھے رشتے کی تلاش میں تھی۔
چوہدری شمعون اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سمبل کو رام کرنے کے جتنوں میں لگا تھا۔
بینش اور باسط کے ہاں ایک خوبصورت بیٹا پیدا ہواتھا۔




برسات آئی طوفانی بارشیں ہوئیں مزمل کی روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔


دسمبر سے دسمبر آن پہنچا ۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال گزر گیا تھا۔ مزمل نماز پڑھ کر نکلتا وہ دیکھتی اور مزمل گردن جھکا کر چلا جاتا۔ دونوں اطراف سے ایک بھی ناغہ نہ تھا۔ ایک دن حسب معمول سب نمازیوں کے جانے کے بعد مزمل اُٹھا حکیم صاحب نے اُسے روک لیا۔
”بیگ صاحب…! بیٹھ جائیں۔“ حکیم صاحب نے شفقت سے کہا۔
”آج آپ کو کھڑکی بند ملے گی۔

“ مزمل نے نظریں اُٹھا کر حکیم صاحب کی طرف دیکھا۔ اُس کی نگاہوں میں کئی سوال تھے مگر وہ خاموش رہا۔ اُس نے دل میں سوچا:
”حکیم صاحب کو کس نے بتایا؟“
”بیگ صاحب…! عشق اور مشک نہیں چھپتے…! “ حکیم صاحب نے مزمل کے چہرے پر بکھری حیرت کو ختم کیا۔حکیم صاحب تشفی کے انداز میں بولے:
”ماہم بیٹی کا کل رات کو اپینڈس کا آپریشن ہوا تھا۔ وہ اس وقت ہسپتال میں ہے۔

مزمل کے چہرے پر حیرت کی جگہ پریشانی آ بیٹھی۔
” وہ اب بالکل ٹھیک ہے مزمل بیٹا…! تم فکر مت کرو۔“حکیم صاحب نے چہرے پر بیٹھی پریشانی اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔
”اُس کا آپریشن ہوا ہے؟“ مزمل نے ہولے سے پھر پوچھا۔
”مزمل بیٹا…! تم میرے ساتھ آؤ یہاں مسجد میں بات کرنا غیر مناسب ہے۔“
حکیم صاحب ، مزمل کو اپنی بیٹھک میں لے گئے۔ حکیم صاحب نے عشال کو بلا کر ناشتے کے لیے کہا ہی تھا کہ مزمل فوراً بول پڑا:
”میں چائے پی لوں گا ناشتہ نہیں کروں گا“ حکیم صاحب نے عشال کو جانے کا اشارہ کیا۔

وہ چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد ناشتہ لے کر آئی ۔ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد حکیم صاحب نے خود ہی بات شروع کی:
”بیگ صاحب سے مزمل بیٹا اور آپ سے تم تک میں خود ہی آگیا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ تمھیں میری بات سمجھ آجائے۔
ماہم اپنے تایا کے بیٹے شمعون کی منگیتر ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بے جوڑ رشتہ ہے۔ ماسٹر محمود خود اس رشتے کے حق میں نہیں تھا اگر ماہم کا دادا یہ فیصلہ نہ سناتا تو یہ رشتہ کسی صورت نہیں ہو سکتا تھا۔

ماسٹر محمود اپنے باپ کا ادب کرتا تھا۔ اس لیے اُس نے آمین کہہ دیا۔ یہی حال ماہم بیٹی کا بھی ہے، وہ اپنے باپ سے زیادہ اپنے دادا کا ادب کرتی ہے۔
دیکھو مزمل بیٹا … ! میری بات کافی لمبی ہو گئی۔ تمھاری شادی کسی صورت میں بھی ماہم سے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے تم کسی اور لڑکی سے شادی کر لو۔“ حکیم صاحب نے ساری تفصیل بتانے کے بعد لگے ہاتھوں مزمل کو مشورہ بھی دے ڈالا۔


”اُمید کو آگ لگانے سے اندھیرے ملتے ہیں۔ حکیم صاحب …! اُمید پانی کی طرح ہوتی ہے جو کبھی بھی رحمت کے بادلوں سے برس سکتی ہے۔ میں آپ کی محبت، آپ کے خلوص کی قدر کرتا ہوں۔ میں یہ ساری باتیں باسط کی شادی کے دوسرے دن سے جانتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا جس دن میں نے یہاں پہلی بار فجر کی نماز ادا کی تھی، اُس دن سے…“ مزمل کی باتیں سُننے کے بعد اس بار حکیم صاحب ششدر تھے۔

کچھ دیر تک حکیم صاحب خاموش رہے پھر کہنے لگے :
”بیٹا …! اگر میں تنگ نظر یا شدت پسند ہوتا تو شاید تمھاری عبادت کو ہی منافقت قرار دے دیتا … پھر پوچھتا تم لاہور سے یہاں نماز پڑھنے آتے ہو یا اُسے دیکھنے کے لیے…؟“ حکیم صاحب نے مزمل بیگ کے ماتھے کے اوپر پڑے محراب کو دیکھ کر سوال کیا۔
”نماز تو میں فرض ہونے کے بعد سے پڑھ رہا ہوں۔ مجھ میں بے شمار برائیاں ہیں مگر میں نے نماز کبھی نہیں چھوڑی۔

“ مزمل بات کرتے کرتے خاموش ہوگیا۔ حکیم صاحب کو ابھی تک اپنے سوال کا جواب نہیں ملا تھا۔ وہ مزمل کے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر دونوں اطراف سے خاموشی رہی۔ مزمل جواب دینا چاہ رہا تھا پھر اُس نے نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا :
”حکیم صاحب … ! آپ نے کافی مشکل سوا ل پوچھ لیا ہے۔ جب میں لاہور سے نکلتا ہوں تو میں نے نماز کے خیال سے ہی مسجد کی طرف جاتا ہوں۔

اللہ دلوں کے حال جانتا ہے۔ جب میں مسجد کی سیڑھیاں چڑھتا ہوں تو مجھے کبھی اُس کا خیال نہیں آیا۔ ہاں…! اُترتے وقت میری نظر اٹھ جاتی ہے۔ جس پر میرا اختیار نہیں ہوتا۔ میں روز خود سے عہد کرتا ہوں اور روز ہی توڑ دیتا ہوں۔ میری نظر صرف چند سیکنڈ کے لیے اُٹھتی ہے آپ کو کیسے خبر ہو گئی اور لوگوں کو بھی…؟“ مزمل کی حیرانی بڑھتی جا رہی تھی۔

حکیم صاحب اُس کے ماضی اور حال سے باخبر تھے۔
”نہیں…نہیں…بیٹا…! میرے علاوہ کسی کو خبر نہیں۔ چھوٹے قصبوں ، دیہاتوں میں نائی، دائی اور حکیم سے کم ہی باتیں چھپتی ہیں۔ دیہاتوں میں لوگ اب بھی اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ یہاں سب کو سب کی خبر ہوتی ہے۔میری دکان پر سارا دن عورتیں ایک دوسرے کی چغلیاں کرتی ہیں، خبر یں سناتی ہیں۔ لاکھ دفعہ منع کیا مگر بے سود… مزمل بیٹا…! اچھی باتیں خوش بو کی طرح پھیلتی ہیں اور بُری بدبو کی طرح ۔

پھیلتی دونوں ہیں بیٹا…! بڑی بات کہنا آسان ہے، عمل کرنا مشکل بلکہ بہت ہی مشکل۔ کیا کہا تھا تم نے؟ اُمید پانی کی طرح ہوتی ہے جو کبھی بھی رحمت کے بادلوں سے برس سکتی ہے۔ تمھارے منہ سے بڑی بات سن کر اچھا لگا۔ اب میری بھی ایک بات یاد رکھو…! آم اور عشق جل کر ہی پکتا ہے۔“ حکیم صاحب نے تفصیل سے سمجھایا تھا جو کہ مزمل کے مزاج کے برعکس تھا اُس نے کچھ خفگی سے کہا :
”حکیم صاحب…! نہ تو میں آپ کا مرید ہوں اور نہ ہی مریض۔

میں تو بزنس مین ہو۔ یہ عشق و شق پر میرا تو یقین نہیں ہے۔ میرے پیرنٹس بھی ایک دوسرے سے عشق کرتے تھے۔ میں اُن دونوں کے عشق کی راکھ ہوں۔“
”اُمید کی بات کرتے ہو اور خود کو راکھ بھی کہتے ہو۔ بیٹا…! اگر کہنا ہی ہے تو راکھ کی بجائے خاک کہہ لو راکھ میں مایوسی ہے اور خاک میں عاجزی۔ عشق عاجزی کے راستے کا ہی مسافر ہے۔“ اس بار حکیم صاحب نے قدرے شگفتگی سے سمجھایا۔

حکیم صاحب کی نرمی اور اچھے اخلاق نے مزمل پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔
”حکیم صاحب …! پتا نہیں کیوں دادوکے بعد میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپ سے سب کچھ کہہ دوں جو میرے دل میں ہے“ مزمل کو کچھ اپنایت کا احساس ہوا تھا، حکیم صاحب کی وجہ سے ۔ حکیم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ امڈ آئی۔
”تم کہہ سکتے ہو، میں تمھارا اپنا ہوں کوئی غیر نہیں۔ اس لیے میں نے تمھیں بیگ صاحب کی بجائے بیٹا کہا تھا۔

تم سب کچھ کہہ دو میں سن رہا ہو۔“
”مجھے نفرت ہے…شدید نفرت…اپنے پیرنٹس سے…وہ دونوں اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔ اگر میری دادی نہ ہوتی تو …“ مزمل کی آنکھیں سرخ ہو گئی اور اس کی رگیں تن گئیں۔
”اُن کے ہونے نا ہونے سے نو پرافٹ…نو لوس…“
حکیم صاحب نے مزمل کو ایک گلاس پانی دیا:
” یہ پی لو مزمل بیٹا…!“
مزمل نے غٹا غٹ سارا پانی پی لیا۔


”کتنے سیل فش تھے وہ دونوں“
”مزمل بیٹا…! تم واقعی اچھے بزنس مین ہو۔ رشتے فائدے اور نقصان سے ماورا ہوتے ہیں۔ تم رشتوں کو بھی فائدے اور نقصان کی طرح دیکھ رہے ہو۔ ماہم کی سوچ تم سے مختلف ہے۔ کل دوپہر کو مریم بہن آئی تھی میرے پاس۔ ماہم کے پیٹ میں درد تھا۔ میں گھر چلا گیا۔ میں نے مریم بہن سے کہا آپ نیم گرم پانی لے کر آئیں۔ وہ پانی لینے چلی گئیں۔

میں نے ماہم سے پوچھا :
”بیٹی …! کہو تو میں تمھارے تایا سے بات کروں کہ وہ شمعون کی دوسری جگہ شادی کر دیں اور تمھاری اُس لڑکے سے…“
میری بات سُن کر ماہم کے ماتھے پر پسینہ آگیا تھا۔ وہ گردن جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔
”میری بچی! میں تمھاری شرافت اور پاک دامنی کی گواہی دیتا ہوں تمھارے ہی سامنے۔ ماہم بیٹی جو بھی تمھارے دل میں ہے صاف صاف کہہ دو…میں تمھارا ساتھ دوں گا۔

”حکیم چاچا…! محبت کی چھری سے عشق کا گلا نہیں کاٹا جا سکتا۔ پتا نہیں یہ کیا ہے۔ مجھے اُسے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ مجھے اس کا انتظار بھی رہتا ہے۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے میں تب بھی اُسے دیکھ رہی ہوتی ہوں۔ مگر اُس نے کبھی نظر نہیں اُٹھائی۔ میں کھڑکی میں کھڑے رہ کر نماز ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔ جب وہ باہر آتا ہے صرف اِک نظر وہ مجھے دیکھتا ہے اُس کے بعد نظریں جھکا کر چلا جاتا ہے ۔

میں نے خود ہی اپنی اس بے وقوفی کو محبت کا نام دے دیا ہے۔“
”بھائی صاحب…! یہ لیں نیم گرم پانی…“ وہ اپنی ماں کی آواز پر خاموش ہو گئی تھی۔
”میں آپ کے لیے چائے لے کر آتی ہوں۔“ مریم بہن نے جاتے ہوئے کہا تھا۔ ماہم گردن جھکائے بیٹھی رہی۔
”ماہم بیٹی…! تم مجھے اپنا باپ سمجھ کر بات کر سکتی ہو“
”حکیم چچا…! میں آپ کو ابّو کی جگہ ہی سمجھتی ہوں اسی لیے وہ بات کہہ رہی ہوں، جو میں نے امّی سے بھی نہیں کہی۔

مجھے مزمل سے محبت ہے مگر اپنے ماں باپ سے عشق ہے۔ سب سے بڑے عاشق تو ماں باپ ہی ہوتے ہیں…جو اپنی اولاد کی خاطر ہنستے مسکراتے ساری تکالیف سہہ جاتے ہیں…والدین سے بڑا عاشق تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا…“
”ماہم بیٹی…! یہ عشق ہے کیا؟“
میں ماہم کو سمجھنا چاہتا تھا۔
”حکیم چچا…! عشق کے بارے میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ میری رائے ہے عشق تو صرف ماں باپ کرتے ہیں اپنے بچوں سے ۔

اللہ میاں جب اولاد کی نعمت دیتا ہے تو ساتھ ہی والدین کے سینوں پر عشق کا نزول بھی ہو جاتا ہے۔ عشق عطائی ہے … اور محبت حکمی… اللہ میاں والدین کو اولاد سے محبت کا حکم نہیں دیتا کیوں کہ وہ تو عطا کر چکا ہوتا ہے۔ ہاں اولاد کو محبت کا حکم ضرور دیتا ہے۔ میں حکم ماننے والوں میں سے ہوں۔“
”ماہم بیٹی…! ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے بچوں سے عشق نہیں کرتے“
”حکیم چچا…! میں نے تو آج تک ایسے والدین نہیں دیکھے۔

”ماہم بیٹی…! تمھارے نہ دیکھنے سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ ایسے والدین بھی ہیں اُن میں سے چند ایک کو میں بھی جانتا ہوں۔“
”بھائی صاحب…! آپ کی چائے…! “ مریم بہن نے چائے میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”بھائی صاحب…! آپ کی پھکی نے تو کمال کر دیا ہے۔ ماہم تو بالکل ٹھیک ہو گئی ہے“
”مریم بہن…! یہ پیٹ کا درد نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے اپینڈس کا درد ہے۔

آپ اسے ہسپتال لے جائیں۔“
”میں مومنہ کو ابھی کہتی ہوں کہ اپنے تایا جی کو فون کر دے کہ شمعون کو بھیج دیں۔“ مریم بہن یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئی تھی۔
”حکیم چاچا واقعی سچ میں ایسے ماں باپ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد سے عشق نہیں کرتے؟“
”ماہم بیٹی…! عشق کہہ لو یا پھر محبت۔ والدین کے دلوں میں اولاد کی محبت اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ ہی ڈالتا ہے۔

یہ صحیح کہا تھا تم نے، اس میں انسان کا کیا کمال ہے یہ تو میرے مولا کی دین ہے۔ ہاں…! اگر اولاد اپنے ماں باپ سے تمھارے جیسی محبت کرے یہ بڑی بات ہے۔ اُف کے بغیر…محبت اور ادب…“
”پھر بھی ایسے والدین ہوتے ہیں۔“ ماہم حیرت سے بولی۔
”ہاں …کچھ بد بخت اس جذبے سے زیادہ اپنی خواہشات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اولاد کو چھوڑ کر اپنی خواہشوں ، حسرتوں ، حرصوں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

”حکیم چچا! آپ جانتے ہیں ۔ ایسے والدین کو جنہوں نے اپنی اولاد کو چھوڑ کر اپنی حسرتیں ، خواہشیں پوری کی ہو۔“ماہم نے مجھ سے عجیب حیرت سے پوچھا تھا۔
”ہاں جانتا ہوں۔ ماہم بیٹی! تمھارا باپ بہت اچھا بندہ تھا۔ ساری دنیا اُس جیسی نہیں ہے۔“
میں نے ماہم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور وہاں سے اُٹھ کے آگیا۔
حکیم صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجی انہوں نے کال ریسیو کی۔


”مزمل بیٹا! ایک مریض کی طبیعت خراب ہے۔ میں معراج کے گاؤں تک جا رہا ہوں۔ میں عروسہ اور عشال کو بھیجتا ہوں تم اُن سے گپ شپ لگاؤ۔ ہاں یاد آیا خالہ کے لیے دیسی گھی خریدا ہے۔ عشال سے کہتا ہوں وہ تمھیں دے دیتی ہے، وہ یاد سے لے جانا“
حکیم صاحب نے یہ کہا اور بیٹھک سے چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد عشال عروسہ کی وہیل چیئر کو دھکا لگاتی ہوئی بیٹھک میں داخل ہوئی۔

گھی کا ڈبہ عروسہ کی گود میں تھا۔
مزمل تھوڑی دیر عروسہ سے باتیں کرتا رہا۔ عشال سے اُس نے صرف اتنا پوچھا:
”تم مانچسٹر کب جا رہی ہو“
پھر اُس نے اجازت لی اور بیٹھک سے نکل آیا۔ باہر سردی بھی تھی اور دھند بھی۔ مزمل نے مسجد کی سیڑھیوں کے پاس سے گزرتے ہوئے گردن اُٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا جو بند تھی۔ دیسی گھی کا ڈبہ اُس کے بائیں ہاتھ میں تھا۔
ماہم کی کھڑکی بند ہونے کی وجہ سے آج مزمل کی آنکھیں بے نور تھیں۔
وہ فیکٹری جانے کی بجائے لاہور واپس چلا گیا تھا۔
Episode #15

Mann K Mohally Main Episode #15 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode


Click Below For Reading More Novels

Mann K Mohally Main Haalim (Nimra Ahmed) Zeerak Zann Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment