Pages

Tuesday, January 10, 2023

Mann K Mohally Main Episode #16 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels

Mann K Mohally Main Episode #16 By Shakeel Ahmed Chouhan




Mann K Mohally Main Episode #16 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels

من کے محلے میں



Episode #16
لاہور پہنچ کر اُس نے سیدھا گھر کا رُخ کیا۔ ممتاز بیگم کو اُس کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ وہ صبح سے پچھلے پہر تک کمرے میں ہی تھا۔ اُس نے اپنا موبائل Offکر رکھا تھا۔ ممتاز بیگم خود اوپر جا نہیں سکتی تھیں۔ باذلہ کے علاوہ وہ کسی دوسرے کو بھیجنا نہیں چاہتی تھیں۔ باذلہ میڈیکل کالج سے واپس لوٹی، باذلہ کے آنے کے بعد ممتاز بیگم نے اُسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔

باذلہ کھانا لے کر اُس کے کمرے میں پہنچی۔ مزمل صوفے پر لیٹا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ باذلہ دستک کے بغیر ہی اندر چلی گئی۔
باذلہ نے صوفے کی سائید ٹیبل پر نگاہ ڈالی۔ جہاں پر ڈرائی فروٹ کی ٹرے جوں کی توں تھی۔ اُس کے اوپر سے شیشے کا ڈھکنا بھی نہیں ہلایا گیا تھا۔ باذلہ کو اچھی طرح سے یاد تھا۔



اُس نے ٹرے میں ڈرائی فروٹ ڈال کر کل رات کو جس پوزیشن میں رکھی تھی وہ ویسے ہی پڑی تھی۔

باذلہ نے کچھ بولے بغیر کھانا مزمل کے سامنے شیشے کی میز پر رکھا۔ پھر جا کر فریج کھولا فروٹ چاٹ بھی ویسی کی ویسی پڑی ہوئی تھی۔ وہ مزمل کے سامنے آکے گردن جھکا کر کھڑی ہوگئی مزمل خیالوں کی وادی سے واپس لوٹا تو اس نے باذلہ کو اپنے سامنے پریشان کھڑا پایا۔
وہ صوفے سے جلدی سے اُٹھا اور باذلہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
”باذلہ کیا ہوا…؟“ اُس نے فکر مندی سے پوچھا۔

باذلہ نے کوئی جواب نہیں دیا خاموش رہی۔
”باذلہ کیا بات ہے…بتاؤ تو سہی…“ وہ پریشانی سے چلایا۔
”مجھے بہت بھوک لگی ہے“ باذلہ معصومیت سے بولی۔ مزمل کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی تھی، باذلہ کی بات سُن۔ کھانا تو وہ کھا چکی تھی پھر بھی اُس نے مزمل کو کھانا کھلانے کی خاطر اُس کا پورا ساتھ دیا۔
مزمل نے تھوڑا سا سلاد کھانے کے بعد کہا:
”فروٹ چاٹ نہیں لے کر آئی“
”امّی بنا رہی تھیں…ابھی لے کر آتی ہوں“
باذلہ جلدی سے اُٹھی فریج سے صبح والی چاٹ نکالی وہ نیچے لے گئی اور تازہ بنائی ہوئی چاٹ لے کر فوراً لوٹی۔


”بھائی! آج بینش بھابھی اور باسط بھائی کی فسٹ ویڈنگ اینی ورسری ہے۔ دونوں کی بڑی خواہش ہے آپ اُن کے ساتھ کیک کاٹیں“ باذلہ کی بات پر مزمل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ باذلہ پھر بول پڑی :
”سارا انتظام نیچے لاؤنج میں ہی کیا ہے۔“
”اور کچھ…“ مزمل نے سنجیدگی سے پوچھا۔ باذلہ تھوڑی سہم سی گئی۔
”یہ تو اُن دونوں کی خواہش تھی“ مزمل نے تھوڑا سا اور موڈ بنایا۔

باذلہ تھوڑا سا ڈر گئی اور نظریں جھکا لیں۔مزمل فوراً بولا :
”ڈاکٹر صاحبہ! ڈر گئی…“ باذلہ نے مزمل کی آواز پر اُس کے چہرے کو دیکھا جہاں پر مسکراہٹ تھی۔
”آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا“ باذلہ نے جلدی سے اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا۔
”تم مجھے بہانے سے کھانا کھلا سکتی ہو تو میں بھی ڈرا سکتا ہوں…کیک کب کاٹنا ہے“
”جب آپ کہیں…“ باذلہ نے قدرے اعتماد سے جواب دیا۔


”میرا خیال ہے مغرب کے بعد ٹھیک رہے گا“
” بھائیThanks.....“ باذلہ نے یہ کہا اور برتن اُٹھا کر کمرے سے روانہ ہوگئی۔

#…#

مزمل مغرب کی نماز پڑھ کر لوٹا تو سب اُس کا انتظار کر رہے تھے۔
مزمل نے باسط اور بینش کے ساتھ کیک کاٹا۔ تھوڑا سا کیک کھایا بھی ۔ ممتاز بیگم کو اُسے دیکھ کر تسلی ہوگئی تھی۔ مزمل اوپر جانے لگا تو باذلہ نے آواز لگائی:
”بھائی!“ مزمل رُک گیا۔

وہ چلتے چلتے مزمل کے پاس گئی۔ اُس کی گود میں باسط کا بیٹا تھا۔ اُسے مزمل کے سامنے کرتے ہوئے بولی:
”یہ باسط جونیئر ہے۔ ماشاء اللہ ڈیڑھ ماہ کا ہوگیا ہے۔ پتہ ہے اس کو گھٹی میں نے دی ہے۔“ سب کی نظریں مزمل اور باذلہ پر مرکوز تھیں جو دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے اور اُن کے درمیان میں باذلہ کے ہاتھوں میں باسط جونیئر تھا۔
”میں نے اس کا نام کسی کو نہیں رکھنے دیا۔

میں نے کہا اس کا نام میرے بھائی رکھیں گے۔“ باذلہ کی نظریں باسط جونیئر پر تھیں اور مزمل کی باذلہ کے مکھڑے پر ۔ مزمل نے اپنی دادی کی طرف دیکھا ۔
”رکھ دو…تمھارا بھتیجا ہے“ ممتاز بیگم نے بھتیجے پر زور دے کر کہا۔
”محمد بن باسط…آج سے اِس کا نام…محمد بن باسط ہے“ مزمل نے یہ کہا اور اوپر جانے والی سیڑھیوں کی طرف چل دیا۔
”مزمل بیٹا!“ ممتاز بیگم نے میٹھی آواز میں کہا ۔


”بھتیجے کو منہ دکھائی تو دو“
”منہ دکھائی…؟“ مزمل نے حیرت سے دادی کی طرف دیکھا۔
”ہاں بیٹا! جب گھر میں کوئی ننھا مہمان آتا ہے تو اُسے منہ دکھائی دیتے ہیں“
مزمل نے اپنے بٹوئے سے پانچ ہزار کا ایک نوٹ نکالا اور اُسے محمد بن باسط کے ننھے ہاتھ کے پاس کمبل پر رکھ دیا اور خود جلدی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔
”یا اللہ تیرا شکر ہے …میرا بچہ بالکل ٹھیک ہے“
ممتاز بیگم نے مزمل کے جانے کے بعد کہا تھا۔


#…#

”اللہ کا شکر ہے…اب ماہم آپی بالکل ٹھیک ہیں“ مومنہ نے جواب دیا۔ باذلہ نے مومنہ کو کال کی تھی۔
”سو رہی ہیں…کیا ؟“باذلہ نے نرم شگفتہ لہجے کے ساتھ پوچھا۔
”نیند کہاں ہے اُن کی آنکھوں میں گھر جانے کی ضد کر رہی ہیں“مومنہ نے اُنسیت سے جواب دیا۔
”ڈاکٹروں کو ڈسچارج کر دینا چاہیے۔ا ٓپریشن کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے“
”میں نے بھی اُن سے یہی کہا تھا۔

آپی ! آٹھ بجے تک رُک جائیں آٹھ بجے ڈاکٹروں کا راؤنڈ ہے۔ وہ آپ کو ڈسچارج کر دیں گے۔“
”پھر کیا بولیں…ماہم آپی…؟“
”پھر یہ … مجھے ڈانٹ دیا۔ میں خاموش ہوگئی تھوڑی دیر بعد حکیم چچا اور عشال آپی گھر سے کھانا لے کر آگئے۔ میں تو حکیم چچا کے ساتھ روم سے باہر آگئی۔ عشال آپی نے سمجھایا تو ریلیکس ہوئی ہیں۔ عشال آپی کھری کھری سنا جو دیتی ہیں، اُن کی بات ماہم آپی کو فوراً سمجھ آجاتی ہے“
”ماہم آپی نے کچھ کھایا…؟“باذلہ نے فکر مندی سے پوچھا۔


”کہاں یار…کل سے تھوڑا سا جوس پیا ہے۔ ایک دن میں ہی آپی کا منہ نکل آیا ہے۔ آنکھوں کے نیچے ہلکے ہلکے حلقے محسوس ہو رہے ہیں۔ اب عشال آپی کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ امّی کا بھیجا ہوا سوپ ہی پلا دیں۔ تم سناؤ… مزمل بھائی کی… “ مومنہ نے باذلہ کو تفصیل بتانے کے بعد اپنی پوچھ لی۔
”وہ آپی سے بھی آگے ہیں…عصر کے بعد تھوڑا سا سلاد اور فروٹ چاٹ کھلائی ہے۔

حکیم چچا تمھارے پاس ہیں؟“
”وہ کسی کام سے گئے ہیں کہہ رہے تھے تھوڑی دیر میں آجاؤں گا“
”ماہم آپی کے پاس کون ہے اس وقت…“
”تم بھی کمال کرتی ہو باذلہ…کتاب کا سوال بھولتی نہیں اور باتیں بھول جاتی ہو…بتایا تو تھا عشال آپی ہیں“
”اچھا اچھا غصہ کیوں کر رہی ہو“ باذلہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”مجھے تم پر پہلے ہی بڑے غصے ہیں ! ماہم آپی کہتی ہیں باذلہ کو دیکھو کتنا پڑھتی ہے۔

بینش باجی کی سنو تو باذلہ نے سارا گھر سنبھالا ہے۔ عشال آپی دیکھا اُس دن باذلہ نے کیسا زبردست جُوڑا بنایا تھا اور تو اور میری خود کی امّی وہ بھی کہتی ہیں باذلہ بڑی اچھی بچی ہے“ مومنہ اپنی بہن کو بھول کر خود ہی باذلہ پر گرج برس رہی تھی۔ موبائل کی دوسری طرف باذلہ اُس کی باتوں پر مسکرا رہی تھی۔ باذلہ نے مسکراتے مسکراتے اپنا چشمہ اُتار کر صاف کیا۔


#…#

”تھینک گاڈ تمھارے منہ پر سمائل تو آئی“عشال نے ماہم کو سوپ پلانے کے بعد ایک لطیفہ سنایا تھا۔
”راؤنڈ ہونے والا ہے۔ آپ یہ برتن وغیرہ سمیٹ لیں“ نرس نے آکر اطلاع دی تھی۔
”عشال نے فوراً سارا سا مان اُٹھا لیاتھا۔
ڈاکٹروں نے ماہم کو حسب توقع ڈسچارج کر دیا تھا۔ایک جونیئر ڈاکٹر نے فائل پر ساری تفصیل لکھنے کے بعد ماہم سے کہا:
”مس ماہم میں نے ساری ڈیٹیل اس میں لکھ دی ہے آپ پڑھ لیجئے گا“ڈاکٹر نے فائل بائیں ہاتھ میں لہرائی اور اُس کے بعد بیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔


ڈاکٹر جانے لگا تو۔
”ایکسیوزمی ڈاکٹرصاحب!کوئی پرہیز وغیرہ…!“عشال نے پوچھا۔
”پرہیز…تو As suchکوئی نہیں…بس چند دن سیڑھیاں نہیں چڑھنی…“ڈاکٹر نے الفاط کو چبا چبا کر کہا۔ سیڑھیاں سن کر عشال نے مسکراتے ہوئے ماہم کی طرف دیکھا ۔ ڈاکٹر چل پڑا تو عشال نے فٹ سے پوچھا :
”ایکسیوز می ڈاکٹر صاحب!…کھانے میں کیا؟“ڈاکٹر نے عجیب نظروں سے عشال کو دیکھا۔

اُس کے بعد اس نے بیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی فائل اُٹھائی اور کہنے لگا:
اس میں ساری ڈیٹیل لکھ دی ہے…ایک ضروری سوال تو آپ بھول ہی گئیں ٹانکے کب تک کھل جائیں گے“ ڈاکٹر نے عشال کے ہی انداز میں اُسے کہا۔
”مس ماہم! دو دن بعد آپ نے چیک اپ کے لیے آنا ہے۔ آپ کے اسٹیچز بھی ساتھ ہی نکال دیں گے“ ڈاکٹر نے عشال کی نسبت ماہم سے انتہائی شائستگی سے بات کی تھی۔

ڈاکٹر کے جانے کے بعد ماہم مسکرا پڑی جبکہ عشال غصے سے ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی۔
”عشال! غصہ تھوک دو… اور میری بات کان کھول کر سن لو…مجھے ہر حال میں اپنے روم میں جانا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کیسے…یہ تمھارا مسئلہ ہے۔ صرف تمھیں پتہ ہے ڈاکٹر نے مجھے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کیا ہے“
”واہ جی واہ…یہ جو باہر تمھاری سسٹر ہے۔ یہ پاگل نہیں بلکہ ڈاکٹر بن رہی ہے۔

تمھاری امّی بھی اتنی سیدھی نہیں کہ جو اسٹوری میں سناؤں گی وہ اُسی پر یقین کرلیں گے … ایمپوسیبل … ماہم چوہدری … ایمپوسیبل …“

#…#

”یہ ناممکن ہے…بیگ صاحب میں نے سال پہلے بھی کہا تھا۔ آج بھی کہہ رہا ہوں۔ آپ نے محبت کے چکر میں اپنا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا۔ جتنا وقت آپ نے محبت کو دیا ہے۔ اتنا آپ بزنس کو دیتے تو سال میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔

اب بھی واپس لوٹ آئیں۔ ماہم چوہدری کسی قیمت پر آپ کو نہیں مل سکتی“ دماغ خود ہی بیگ صاحب کو سمجھا رہا تھا۔ مزمل موونگ چیئر پر بیٹھا ہوا وال کلاک کو دیکھ رہا تھا۔ چیئر کے موو کرنے کے باوجود بھی مزمل سال پہلے والی جگہ پر ہی بیٹھا تھا۔ وقت کی گردش بھی اُسے ماہم کے قریب نا کر سکی۔
”ناممکن صرف وہ ہے جسے انسان ناممکن سمجھتا ہے۔“ دل نے دبے لفظوں کے ساتھ اپنی بات کا آغاز کیا۔

دماغ نے سنا تو زور کا قہقہ لگایا اور ہنستے ہنستے بولا:
”تم ناممکن کو ممکن کر کے دکھاؤ مسٹر ہارٹ ! تو میں تمھارے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا“
”نہ دل کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی دماغ جب تک انسان خود نہ کچھ کرنا چاہے“ دل نے اپنی گزارشات پیش کیں۔
”مسٹر ہارٹ! لیکچر مت دو…سلوشن بتاؤں“ دماغ نے دل پر طنز کیا۔
”مزمل صاحب ! دُعا کرو…دعا…!“ دل، دماغ کی بجائے مزمل سے مخاطب ہوا دل کی بات سُن کر مزمل کو یاد آیا، اُس نے تو اب تک عشاء کی نماز بھی ادا نہیں کی۔


#…#

”مومنہ! نماز پڑھ لی تم نے…“ مریم نے سختی سے پوچھا۔
”پڑھ لی ہے…امّی جی…!“ مومنہ نے تھکے ہوئے انداز سے بتایا۔
”اتنی جلدی…“مریم بی بی نے روکھے لہجے میں کہا ۔
”امّی جی! نماز ہے نمازے تراویح تھوڑی ہے“
”مومنہ بیٹی! عشاء کی نماز میں بھی تم ٹائم فجر جتنا ہی لگاتی ہو۔“
”امّی جی ! اب یہ مت کہہ دیجیے گا باذلہ تو عشاء سے فجر تک عشاء ہی پڑتی رہتی ہے۔

”بکو مت…جب سے تمھیں میڈیکل کالج میں داخلہ ملا ہے تمھارے پر نکل آئے ہیں۔“ مریم بی بی نے مومنہ کے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ مار تے ہوئے کہا تھا۔
”امّی جی! تایا جی کی طرف سے کوئی بھی آپی کا پتہ کرنے نہیں آیا۔ آپ نے تو مجھ سے فون بھی کروایا تھا“
”مومنہ! حکیم صاحب اور گلاب خان کے ہوتے ہوئے تیرے تایا جی کی ضرورت نہیں ۔ وہ تو انہیں اطلاع دی تھی۔

بعد میں اعتراض کرتے اپنوں کے ہوتے ہوئے بیٹی کو غیروں کے ساتھ ہسپتال لے گئی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے تیرے تایا جی کا فون آیا تھا۔ کل آرہے ہیں۔ ماہم کا پتہ بھی کریں گے اور شادی کی تاریخ بھی مانگیں گے“۔
”شادی کی تاریخ…؟“مومنہ کو کرنٹ سا لگا اپنی ماں کی بات سُن کر، وہ جلدی سے بولی :
”آپ نے آپی سے پوچھا…“
”ہاں…اُس نے کہا ہے جو وہ تاریخ مانگیں گے دے دیجئے گا“ مریم بی بی نے کرب سے بتایا۔


”امّی جی! گستاخی معاف میرے کالج سے تھوڑا سا آگے مینٹل ہاسپٹل ہے۔ وہاں آپی کا چیک اپ کرواتی ہوں۔“
”تم اپنی بکواس بند کرو“مریم بی بی نے تلخی سے جواب دیا۔
”امّی جی ! ایک بات کہوں۔اُن کی محبت گونگی ، بہری نہیں ہم سب گونگے بہرے ہیں۔ تین گھرا نے سب کے سب گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں“
مریم بی بی نے غور سے مومنہ کو دیکھا۔
”آپ خود ہی کہتی ہیں، میں بچی نہیں ہوں۔

آپ کا کیا خیال ہے۔ آپ مجھے اور عشال آپی سے خود کہیں گی کہ ماہم کو تم دونوں سہارا دے کر اُس کے کمرے میں چھوڑ آؤ۔ امّی جی ایسے مت دیکھیں۔ آپ نے کبھی سوچا ہے اگر یہ بات تین گھروں سے نکل کر معراج کے تین سوگھرانوں تک پہنچ گئی تو…؟ پھر کیا ہوگا…؟ لوگ باتیں بنائیں گے۔ آپی کی عزت خاک میں مل جائے گی۔ وہ بدنام ہو جائیں گی پھر کون کرے گا اُن سے شادی… ؟“
”مزمل بیگ…! مزمل بیگ کرے گا تمھاری آپی سے شادی۔

اللہ کو پتہ نہیں کیا منظور ہے۔ سال بھر ہوگیا ، بینش کی شادی کو اُس کے بیٹا بھی پیدا ہوگیا، پر تیری آپی بدنام نہ ہوئی۔“
”امّی جی! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں…“ مومنہ نے حیرت سے کہا۔
”ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ میرا اختیار صرف اتنا تھا کہ میں اس رشتے سے انکار کر دوں۔ وہ اختیار بھی تمھاری بہن نے مجھ سے چھین لیا ہے۔ اپنا اختیار وہ استعمال کرتی نہیں پھر کیسے اُس شرابی سے جان چھوٹے گی۔

بہشتی تیرے ابّو نے ہمیشہ تندرستی اور عزت کی دعا مانگی تھی۔ ایک بار مجھ سے کہنے لگے مریم! بدنامّی اور بیماری دونوں ہی بری چیزیں ہیں۔ پر بدنامّی جو ہے یہ بیماری سے بھی زیادہ بُری چیز ہے ۔بیماری کے بعد تو شفا مل جاتی ہے بدنامّی کے بعد تو شفا بھی نہیں ملتی۔ میں نے سوچا تھا۔ بدنام ہوگی تو تیرے تایا جی رشتہ توڑ دیں گے۔ تب مزمل بیگ سے نکاح کروا دوں گی ۔

لگتا ہے تیرے ابّو کی دعائیں کام آرہی ہیں۔ ورنہ اِس دور میں تو منٹوں میں ساری دنیا میں خبر پھیل جاتی ہے“
” سیریس میں آپ کو بھی سمجھ نہیں پائی ۔آپی ایک سال سے ایک لڑکے کو دیکھ رہی ہیں۔ آپ کو پہلے دن سے سب کچھ پتہ ہے۔ آپ پھر بھی خاموش ہیں…کیوں…؟ یہ بھی تو غلط بات ہے۔“
”میں نے کب کہا کہ یہ صحیح ہے۔ ہم گوشت پوشت کے انسان ہے۔ صرف اُس کی رحمت کا ہی آسرا ہے۔

جہاں تک اُن دونوں کی بات ہے اُنہوں نے تو آج تک ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کی۔ آج کل کے لڑکے تو ہاتھ پہلے پکڑتے ہیں اور بات بعد میں کرتے ہیں۔“
”بات نہیں کی تو سب جائز ہوگیا۔“ مومنہ نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
مومنہ! مجھے بھی تیری سمجھ نہیں آرہی ہے۔ تیرے یہ چبھتے ہوئے سوال…میں ماں بھی ہوں اور کسی کی بیوہ بھی۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں میری بیٹی اپنی محبت بھی نہ ہارے اور اُس کا باپ بھی جیت جائے۔

سچ کہوں تو میں اگر ماہم کی جگہ ہوتی تو کب کا انکار کر دیتی۔ یہ کہہ کر بچپن کی منگنی تھی۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے ماہم بڑی عقل والی ہے اور کبھی تمھاری طرح پاگل ہی لگتی ہے“
”امّی جی !میں بھی نہیں چاہتی کہ آپی کی شادی شمعون سے ہو۔ میں نے تو پہلے دن ہی سے مزمل بھائی کو آپی کے لیے پسند کر لیا تھا۔“
”تو پسند کرئے تو ٹھیک میں پسند کروں تو غلط“
پتہ نہیں امّی جی ! کیا غلط ہے اور کیا صحیح… اللہ کرئے کسی بھی طرح ماہم آپی کی شادی مزمل بھائی سے ہوجائے“
”آمین…“ مریم بی بی نے گہری سانس کے ساتھ کہا تھا۔

Episode #16

Mann K Mohally Main Episode #16 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode


Click Below For Reading More Novels

Mann K Mohally Main Haalim (Nimra Ahmed) Zeerak Zann Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment