Zeerak Zann Episode #3 By Shakeel Ahmed Chouhan
Zeerak Zann Episode #3 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels | Sad _ Emotional Novel
زِیرک زَن-قسط نمبر 3
Episode #3
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ علی بخش کی دوائی لے کر ڈیرے پر واپس لوٹے۔ علی بخش کو دوائی اور کھانا کھلا کر ہی میاں جی اپنے حجرے میں آئے تھے۔
” ضرار بیٹا ظہر کے آئے ہو۔ عشاء ہو چکی ہے اب تم گھر جاؤ۔“ میاں جی نے نشست پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
” گھر میں ڈر لگتا ہے مجھے ! “ ضرار نے صاف گوئی سے بتا دیا۔
”کتنی بار بول چکا ہوں شادی کر لو۔
“
میاں جی نے بے خیالی میں کہہ دیا تھا۔
”عترت سے کروا دیں۔“
”اوہ … “ بے خیالی میں اپنے منہ سے نکلے ہوئے جملے پر میاں جی غور کرنے لگے۔
” تم کل آؤ بات کرتے ہیں۔“میاں جی نے کہا۔
” کل اگر ہڑتال ختم ہو گئی تو یہاں پر رش لگ جائے گا۔“ ضرار نے بتایا۔ میاں جی نے اُس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ لمحہ بھر سوچنے کے بعد بولے
”علی بخش کے حجرے سے توفیق کو بلا کر لاؤ۔
”توفیق کون…؟“ ضرار نے پوچھا۔
”وہ لڑکا جو ابھی ہمارے ساتھ گیا تھا۔“
”جی“ توفیق کو بلانے کے لیے ضرار وہاں سے چلا گیا۔ میاں جی نے آنکھیں بند کرتے ہوئے لمبی سانس بھری۔
” جی میاں جی “ توفیق کی آواز پر میاں جی نے آنکھیں کھول کر اُس کی طرف دیکھا۔
” توفیق بیٹا! میں ضرار صاحب کے ساتھ جا رہا ہوں۔“ یہ سنتے ہی ضرار نے پوری آنکھیں کھول کر میاں جی کی طرف دیکھا۔
”ابھی تک ہڑتال ختم نہیں ہوئی۔ کل بھی اللہ کے بندے نہیں آ سکتے، اگر کوئی آیا تو اسے بتا دینا میں آج نہیں مل پاؤں گا۔ علی بخش کا خیال رکھنا“
میاں جی نے ساری ہدایات دینے کے بعد توفیق کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا۔ توفیق اُلٹے پاؤں بڑے ادب کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
” آپ میرے ساتھ چلیں گے …؟ میرے گھر …؟“ ضرار نے بے یقینی سے پوچھا۔
”دیکھتے ہیں۔“ میاں جی یہ بول کر اپنی جگہ سے اُٹھے اور حجرے سے باہر آ گئے۔ ڈیرے کے صحن میں برگد کے پیڑکے نیچے ملنگ بیٹھا ہوا تھا۔ میاں جی اُس کے پاس گئے اور بڑی اُلفت سے بولے :
” ملنگ جی ! بچوں کا خیال رکھنا۔“ ملنگ خالی خالی نظروں سے میاں جی کو دیکھے جا رہا تھا۔ اُس نے کوئی جواب نہیں دیا، میاں جی آگے چل دیے۔ جیسے ہی میاں جی ڈیرے سے باہر آئے، ضرار نے بڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے کار کا اگلا دروازہ کھول دیا۔میاں جی نے کار میں بیٹھے ہوئے حکم دیا :
”راوی کلفٹن چلو۔“ ضرار نے حکم بجا لاتے ہوئے کار شرقپور روڈ کی طرف موڑ دی۔ شرقپور روڈ سے پھول منڈی والا چوک پھر شیخوپورہ روڈ سے گزرتے ہوئے وہ شاہدرہ موڑ پہنچے میاں جی نے اُلٹے ہاتھ مڑنے کا اشارہ کیا، اب اُن کا منہ مرید کے کی طرف تھا۔ کچہری کے برابر جا کر میاں جی نے uٹرن لینے کا اشارہ کیا۔ کار کا منہ واپس شاہدرہ موڑ کی طرف ہو گیا۔کچہری کے ساتھ ہی میاں جی نے پھر اُلٹے ہاتھ مڑنے کا اشارہ کر دیا۔ نور جہاں کے مقبرے کے سامنے سے ریلوے ٹریک کے نیچے بنے ہوئے انڈر پاس سے گزر کر اب کار مقبرہ جہانگیر کی مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ جا رہی تھی۔ جیسے ہی اُلٹے ہاتھ مقبرہ جہانگیر کا وہی مرکزی دروازہ آیا۔ ضرار نے کار روک دی۔ ضرار نے جا کر اُسی مقام پر بریک لگائی تھی، جہاں پر اُس نے عترت کو چھوڑ اتھا۔
”سیدھا چلو۔“ میاں جی نے پرانے راوی کے پل کی طرف جانے والی سڑک کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ضرار پھر سے کار چلانے لگا، اب اُس نے اُس گلی کے سامنے کار روک دی تھی، جس میں عترت داخل ہوئی تھی۔ میاں جی نے اپنی عقل و دانش کے زور پر وہ سارا منظر دیکھ لیا تھا۔ وہ ضرار کی طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرائے پھر کہنے لگے :
” اب جہاں میں کہوں، وہاں کار کھڑی کرنا۔“ مین روڈ پر واقع ایک قبرستان کے بعد والی گلی کے سامنے میاں جی نے اشارہ کیا۔ ضرار نے کار روک دی۔ کار سے اُترتے ہوئے میاں جی بولے :
”مجھے تھوڑی دیر لگ سکتی ہے۔ جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔“ ضرار نے گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے دل میں کہا :
” جو کام ماما، پاپا نہیں کر سکے وہ میں کروں گا۔“ میاں جی چلے گئے۔ ہڑتال کے باوجود سڑک پر ذاتی سواریوں کی وجہ سے رونق تھی۔ضرار نے سڑک کنارے کار لگانے کے بعد اُسے اندر سے لاک کر لیا۔
” کیا ہے ۲۱ گرام…؟“ اتنا سا وزن کم ہونے سے انسان مر کیوں جاتا ہے …؟“ اُس نے خود کلامی کی، پھر وہ اپنے جواب کی تلاش میں کار کی LCD پر وہی انگلش فلم دیکھنے لگا۔ اُسے وقت کاپتہ ہی نہیں چلا۔ سوا گھنٹے بعد میاں جی نے کار کے شیشے پر اپنی انگلی سے معزز دستک دی۔ ضرار نے جلدی سے کار کا دروازہ کھول دیا۔جیسے ہی میاں جی کار میں بیٹھے ضرار نے فٹ سے بتایا :
”یہ ہے وہ فلم جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔“ میاں جی نے LCDکی طرف دیکھے بغیر اُسے بند کرنے کا اشارہ کیا۔ ضرار نے ریموٹ سے LCDکو بند کر دیا۔ میاں جی نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالتے ہوئے ضرار سے کہا :
”عترت کا موبائل نمبر ہے۔ مجھے ڈیرے پر چھوڑنے کے بعد گھر جا کر عترت سے موبائل پر بات کر لینا۔“ میاں جی نے کاغذ ضرار کی طرف کیا۔ ضرار نے کاغذ کو پکڑتے ہوئے پوچھا :
” کس سلسلے میں! “
”شادی کا ارادہ بدل تو نہیں گیا …؟“ میاں جی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”نہیں … وہ … مان گئی کیا …؟“ ضرار نے بوکھلاہٹ میں پوچھا۔
” اُس کی کچھ شرطیں ہیں۔“
”کیسی شرطیں…؟“ ضرار نے تھوڑی پریشانی کے ساتھ پوچھا۔
”فون کرو گے تو شرطیں بتا دے گی۔“ میاں جی نے یہ بولتے ہوئے کار چلانے کا اشارہ بھی کیا۔
###
جب ضرار کی کار ڈیرے پر پہنچی سامنے لانگری اور ملنگ دونوں کھڑے تھے۔ میاں جی اور ضرار نے ونڈ اسکرین سے ہی اُنھیں دیکھ لیا تھا۔ میاں جی کار کے رُکتے ہی ضرار کو سمجھانے لگے :
” گھر پہنچ کر پہلے مجھے اپنی خیریت کی اطلاع دینا پھر عترت کو فون کرنا۔“
” ٹھیک ہے میاں جی ! “ ضرار نے تابعداری سے کہا۔میاں جی کار سے اُتر گئے۔ ضرار نے کار موڑتے ہی اُس کی رفتار تیز کر دی وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔
پورچ میں کار کھڑی کرتے ہی اُس نے ٹریک سوٹ کے اَپر سے اپنا آئی فون نکالا جو off تھا۔ آئی فون on کرنے کے بعد اُس نے میاں جی کا نمبر ملایا۔ میاں جی کھاناکھانے کے بعد وضو کر کے اپنے حجرے میں لوٹے تو اُن کے موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی۔میاں جی نے موبائل کا سبز بٹن دبانے کے بعد کہا :
”ہاں جی !“
” میں گھر پہنچ گیا ہوں میاں جی ! “ ضرار نے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے بتایا۔
” شکر ہے مالک کا“ میاں جی نے یہ بولنے کے بعد موبائل کا سرخ بٹن دبا دیا۔ ضرار نے اپنے بیڈروم کا دروازہ بند کرتے ہوئے جیب سے وہ کاغذ نکال کر وہ نمبر ملا دیا۔
” السلام علیکم ضرار صاحب ! “ عترت نے کال ریسیو کرنے کے بعد کہا۔
”آپ نے کیسے پہچانا…“ ضرار نے حیرت سے پوچھا۔
”میں اپنا نمبر دینے سے پہلے، دوسرے کا نمبر لیتی ہوں۔“
”میاں جی بتا رہے تھے۔ آپ نے میرے ساتھ شادی کے لیے ہاں کر دی۔“ ضرار نے جلدی سے اپنے مطلب کی بات پوچھ لی۔
”میاں جی اپنی طرف سے کبھی کوئی بات نہیں کرتے۔“ عترت کے جواب پر ضرار سوچنے لگا پھر وہ اصل بات پر آتے ہوئے بولا :
”کیا ہیں آپ کی شرطیں …؟“
”پہلی شرط : میرا حق مہر، سات کروڑ ہو گا۔وہ بھی معجل“
”معجل مطلب … ؟“ ضرار نے بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔
”نکاح کے وقت ہی سات کروڑ ادا کرنے ہوں گے۔“ عترت نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے بتایا۔
”دوسری شرط …؟“ ضرار نے فٹ سے پوچھا۔
”نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہو گی … پہلے ہم دونوں عمرہ کرنے جائیں گے اپنے اپنے خرچہ پر۔“ عترت کی بات اس بار بھی ضرار نے کاٹتے ہوئے مچلتے لہجے میں پوچھا :
”آپ میرے ساتھ عمرہ کرنے جائیں گی۔“
”عمرے پر جا رہے ہیں۔ ہنی مون پر نہیں۔“ جو تم سوچ رہے ہو … رخصتی سے پہلے ویسا کچھ نہیں ہو گا۔“
عترت نے حتمی انداز میں بتایا۔ مچلتے لہجے کو جلتے لہجے میں بدلنے میں چند گھڑیاں ہی لگی تھیں۔ ضرار نے جلے بھنے انداز میں بتایا :
” میں تمھارا باڈی گارڈ بن کر تمھارے ساتھ نہیں جا سکتا۔“
”آپ سے تم پر آنے میں تمھیں زیادہ وقت نہیں لگا۔محرم اصل میں باڈی گارڈ ہی ہوتا ہے۔ میں نے میاں جی سے کئی بار پوچھا میں اکیلے کیوں نہیں عمرے پر جا سکتی۔ وہ کہنے لگے : ’شہزادیوں کے ساتھ محافظ ہوتے ہیں میں تمھیں کیوں یہ سب بتا رہی ہوں…؟“ عترت نے بھرائی ہوئی آواز میں کال کاٹ دی۔ ضرار صوفے پر بیٹھ گیا۔ بیڈ روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ضرار اپنی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دستک پھر سے ہونے لگی۔ضرار کو اب بھی پتہ نہیں چلا۔ دستک زور زور سے ہونے لگی :
” ہاں … کون ہے … آ جاؤ۔“ ضرار نے چونک کر کہا۔ ایک پچاس سالہ ملازمہ بیڈ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولی :
” صاحب کھانا …؟“
”کھانا …؟“ ضرار نے سوچتے ہوئے کہا۔
” آپ نے دوپہر ایک بجے ناشتہ کیا تھا۔“ ملازمہ نے بتایا۔ ضرار نے لمحہ بھر سوچا پھر کہنے لگا :
”تم کھانا لگاؤ میں آتا ہوں۔“ ملازمہ چلی گئی۔ چند منٹ بعد ضرار بھی ڈائننگ ہال میں کھانا کھانے پہنچ گیا۔ اُس کا ہاتھ نوالے منہ میں ڈال رہا تھا اور دانت چبا رہے تھے۔ اُس کا دماغ عترت کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ضرار کی بے شمار دولت کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں اُس سے دوستی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں۔ عترت نہ تو ضرار سے متاثر ہوئی اور نہ ہی اُس کی دولت سے۔
ضرار کی اَنا کو یہ بات بار بار ڈس رہی تھی۔اُس نے کھانے سے پیٹ بھر لیا مگر اُس کی بھوک بڑھ گئی۔ ضرار اپنے بیڈ روم میں لوٹا، وہ بے چین تھا۔ اُس نے عترت کا نمبر ملایا :
” السلام علیکم “ عترت نے کہا۔
” مجھے آپ کی دوسری شرط بھی منظور ہے۔“ ضرار کی بات سننے کے بعد بھی عترت خاموش تھی۔ ضرار نے خاموشی کو توڑا :
”اور بھی کوئی شرط ہے تو بتا دیں۔“
”شرط تو نہیں ایک بات ہے۔“ عترت نے کہا۔
”جی فرمائیں ! “ ضرار ہلکے سے طنز کے ساتھ بولا تھا۔
”ابھی تم میری اتنی ہی عزت کرو۔ جتنی ساری زندگی کر سکتے ہو۔“ عترت یہ بول کر خاموش ہوئی تو ضرار نے فٹ سے پوچھ لیا :
” وہ بات کیا تھی … ؟“
”یہی بات تھی … میں تمھیں تم کہتی ہوں اور تم سے تُو پر کبھی نہیں آؤں گی۔ تم ! آپ اور تم میں سے ابھی کسی کو چُن لو۔“
”آپ … “ ضرار نے بات کاٹتے ہوئے بتایا، ساتھ ہی اپنے دل کی آرزو بھی بتا دی :
”میں چاہتا ہوں ہم کل نکاح کر لیں۔“
”اتنی جلدی کیوں نکاح کرنا چاتے ہو…؟“
”محبت ہو گئی ہے آپ سے۔“ ضرار نے جلدی سے عترت کے سوال کا جواب دیا۔
”ٹھیک ہے۔ کل دوپہر کو تم میاں جی، لانگری اور علی بخش کو لے کر میرے گھر آ جاؤ۔“ دو گواہ محلے سے ہو جائیں گے۔“ عترت نے کہا۔
”مطلب میں اپنی طرف سے کسی کو نہیں لا سکتا؟“ ضرار نے شکایتی انداز میں پوچھا۔
” میں نے کب منع کیا … ؟ حق مہر کی رقم ساتھ لے کر آنا۔کل ملاقات ہوتی ہے۔“ عترت نے یہ سب کہہ کر، کال کاٹ دی تھی۔
ضرار سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اپنے بیڈ پر کمر کے بل لیٹ گیا۔
” کیا تلاش کر رہا ہوں میں …؟“ کیوں عترت سے شادی کرنے لگا ہوں …؟“ ضرار نے دل ہی دل میں خود سے پوچھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا، پھر کھڑے ہوتے ہوئے اُس نے خود کلامی کی :
” کوئی لڑکی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے کیا …؟“
”وہ لڑکا جو ابھی ہمارے ساتھ گیا تھا۔“
”جی“ توفیق کو بلانے کے لیے ضرار وہاں سے چلا گیا۔ میاں جی نے آنکھیں بند کرتے ہوئے لمبی سانس بھری۔
” جی میاں جی “ توفیق کی آواز پر میاں جی نے آنکھیں کھول کر اُس کی طرف دیکھا۔
” توفیق بیٹا! میں ضرار صاحب کے ساتھ جا رہا ہوں۔“ یہ سنتے ہی ضرار نے پوری آنکھیں کھول کر میاں جی کی طرف دیکھا۔
”ابھی تک ہڑتال ختم نہیں ہوئی۔ کل بھی اللہ کے بندے نہیں آ سکتے، اگر کوئی آیا تو اسے بتا دینا میں آج نہیں مل پاؤں گا۔ علی بخش کا خیال رکھنا“
میاں جی نے ساری ہدایات دینے کے بعد توفیق کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا۔ توفیق اُلٹے پاؤں بڑے ادب کے ساتھ وہاں سے چلا گیا۔
” آپ میرے ساتھ چلیں گے …؟ میرے گھر …؟“ ضرار نے بے یقینی سے پوچھا۔
”دیکھتے ہیں۔“ میاں جی یہ بول کر اپنی جگہ سے اُٹھے اور حجرے سے باہر آ گئے۔ ڈیرے کے صحن میں برگد کے پیڑکے نیچے ملنگ بیٹھا ہوا تھا۔ میاں جی اُس کے پاس گئے اور بڑی اُلفت سے بولے :
” ملنگ جی ! بچوں کا خیال رکھنا۔“ ملنگ خالی خالی نظروں سے میاں جی کو دیکھے جا رہا تھا۔ اُس نے کوئی جواب نہیں دیا، میاں جی آگے چل دیے۔ جیسے ہی میاں جی ڈیرے سے باہر آئے، ضرار نے بڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھتے ہوئے کار کا اگلا دروازہ کھول دیا۔میاں جی نے کار میں بیٹھے ہوئے حکم دیا :
”راوی کلفٹن چلو۔“ ضرار نے حکم بجا لاتے ہوئے کار شرقپور روڈ کی طرف موڑ دی۔ شرقپور روڈ سے پھول منڈی والا چوک پھر شیخوپورہ روڈ سے گزرتے ہوئے وہ شاہدرہ موڑ پہنچے میاں جی نے اُلٹے ہاتھ مڑنے کا اشارہ کیا، اب اُن کا منہ مرید کے کی طرف تھا۔ کچہری کے برابر جا کر میاں جی نے uٹرن لینے کا اشارہ کیا۔ کار کا منہ واپس شاہدرہ موڑ کی طرف ہو گیا۔کچہری کے ساتھ ہی میاں جی نے پھر اُلٹے ہاتھ مڑنے کا اشارہ کر دیا۔ نور جہاں کے مقبرے کے سامنے سے ریلوے ٹریک کے نیچے بنے ہوئے انڈر پاس سے گزر کر اب کار مقبرہ جہانگیر کی مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ جا رہی تھی۔ جیسے ہی اُلٹے ہاتھ مقبرہ جہانگیر کا وہی مرکزی دروازہ آیا۔ ضرار نے کار روک دی۔ ضرار نے جا کر اُسی مقام پر بریک لگائی تھی، جہاں پر اُس نے عترت کو چھوڑ اتھا۔
”سیدھا چلو۔“ میاں جی نے پرانے راوی کے پل کی طرف جانے والی سڑک کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ضرار پھر سے کار چلانے لگا، اب اُس نے اُس گلی کے سامنے کار روک دی تھی، جس میں عترت داخل ہوئی تھی۔ میاں جی نے اپنی عقل و دانش کے زور پر وہ سارا منظر دیکھ لیا تھا۔ وہ ضرار کی طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرائے پھر کہنے لگے :
” اب جہاں میں کہوں، وہاں کار کھڑی کرنا۔“ مین روڈ پر واقع ایک قبرستان کے بعد والی گلی کے سامنے میاں جی نے اشارہ کیا۔ ضرار نے کار روک دی۔ کار سے اُترتے ہوئے میاں جی بولے :
”مجھے تھوڑی دیر لگ سکتی ہے۔ جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ۔“ ضرار نے گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے دل میں کہا :
” جو کام ماما، پاپا نہیں کر سکے وہ میں کروں گا۔“ میاں جی چلے گئے۔ ہڑتال کے باوجود سڑک پر ذاتی سواریوں کی وجہ سے رونق تھی۔ضرار نے سڑک کنارے کار لگانے کے بعد اُسے اندر سے لاک کر لیا۔
” کیا ہے ۲۱ گرام…؟“ اتنا سا وزن کم ہونے سے انسان مر کیوں جاتا ہے …؟“ اُس نے خود کلامی کی، پھر وہ اپنے جواب کی تلاش میں کار کی LCD پر وہی انگلش فلم دیکھنے لگا۔ اُسے وقت کاپتہ ہی نہیں چلا۔ سوا گھنٹے بعد میاں جی نے کار کے شیشے پر اپنی انگلی سے معزز دستک دی۔ ضرار نے جلدی سے کار کا دروازہ کھول دیا۔جیسے ہی میاں جی کار میں بیٹھے ضرار نے فٹ سے بتایا :
”یہ ہے وہ فلم جس کا میں نے آپ سے ذکر کیا تھا۔“ میاں جی نے LCDکی طرف دیکھے بغیر اُسے بند کرنے کا اشارہ کیا۔ ضرار نے ریموٹ سے LCDکو بند کر دیا۔ میاں جی نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالتے ہوئے ضرار سے کہا :
”عترت کا موبائل نمبر ہے۔ مجھے ڈیرے پر چھوڑنے کے بعد گھر جا کر عترت سے موبائل پر بات کر لینا۔“ میاں جی نے کاغذ ضرار کی طرف کیا۔ ضرار نے کاغذ کو پکڑتے ہوئے پوچھا :
” کس سلسلے میں! “
”شادی کا ارادہ بدل تو نہیں گیا …؟“ میاں جی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”نہیں … وہ … مان گئی کیا …؟“ ضرار نے بوکھلاہٹ میں پوچھا۔
” اُس کی کچھ شرطیں ہیں۔“
”کیسی شرطیں…؟“ ضرار نے تھوڑی پریشانی کے ساتھ پوچھا۔
”فون کرو گے تو شرطیں بتا دے گی۔“ میاں جی نے یہ بولتے ہوئے کار چلانے کا اشارہ بھی کیا۔
###
جب ضرار کی کار ڈیرے پر پہنچی سامنے لانگری اور ملنگ دونوں کھڑے تھے۔ میاں جی اور ضرار نے ونڈ اسکرین سے ہی اُنھیں دیکھ لیا تھا۔ میاں جی کار کے رُکتے ہی ضرار کو سمجھانے لگے :
” گھر پہنچ کر پہلے مجھے اپنی خیریت کی اطلاع دینا پھر عترت کو فون کرنا۔“
” ٹھیک ہے میاں جی ! “ ضرار نے تابعداری سے کہا۔میاں جی کار سے اُتر گئے۔ ضرار نے کار موڑتے ہی اُس کی رفتار تیز کر دی وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔
پورچ میں کار کھڑی کرتے ہی اُس نے ٹریک سوٹ کے اَپر سے اپنا آئی فون نکالا جو off تھا۔ آئی فون on کرنے کے بعد اُس نے میاں جی کا نمبر ملایا۔ میاں جی کھاناکھانے کے بعد وضو کر کے اپنے حجرے میں لوٹے تو اُن کے موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی۔میاں جی نے موبائل کا سبز بٹن دبانے کے بعد کہا :
”ہاں جی !“
” میں گھر پہنچ گیا ہوں میاں جی ! “ ضرار نے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے بتایا۔
” شکر ہے مالک کا“ میاں جی نے یہ بولنے کے بعد موبائل کا سرخ بٹن دبا دیا۔ ضرار نے اپنے بیڈروم کا دروازہ بند کرتے ہوئے جیب سے وہ کاغذ نکال کر وہ نمبر ملا دیا۔
” السلام علیکم ضرار صاحب ! “ عترت نے کال ریسیو کرنے کے بعد کہا۔
”آپ نے کیسے پہچانا…“ ضرار نے حیرت سے پوچھا۔
”میں اپنا نمبر دینے سے پہلے، دوسرے کا نمبر لیتی ہوں۔“
”میاں جی بتا رہے تھے۔ آپ نے میرے ساتھ شادی کے لیے ہاں کر دی۔“ ضرار نے جلدی سے اپنے مطلب کی بات پوچھ لی۔
”میاں جی اپنی طرف سے کبھی کوئی بات نہیں کرتے۔“ عترت کے جواب پر ضرار سوچنے لگا پھر وہ اصل بات پر آتے ہوئے بولا :
”کیا ہیں آپ کی شرطیں …؟“
”پہلی شرط : میرا حق مہر، سات کروڑ ہو گا۔وہ بھی معجل“
”معجل مطلب … ؟“ ضرار نے بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔
”نکاح کے وقت ہی سات کروڑ ادا کرنے ہوں گے۔“ عترت نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے بتایا۔
”دوسری شرط …؟“ ضرار نے فٹ سے پوچھا۔
”نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہو گی … پہلے ہم دونوں عمرہ کرنے جائیں گے اپنے اپنے خرچہ پر۔“ عترت کی بات اس بار بھی ضرار نے کاٹتے ہوئے مچلتے لہجے میں پوچھا :
”آپ میرے ساتھ عمرہ کرنے جائیں گی۔“
”عمرے پر جا رہے ہیں۔ ہنی مون پر نہیں۔“ جو تم سوچ رہے ہو … رخصتی سے پہلے ویسا کچھ نہیں ہو گا۔“
عترت نے حتمی انداز میں بتایا۔ مچلتے لہجے کو جلتے لہجے میں بدلنے میں چند گھڑیاں ہی لگی تھیں۔ ضرار نے جلے بھنے انداز میں بتایا :
” میں تمھارا باڈی گارڈ بن کر تمھارے ساتھ نہیں جا سکتا۔“
”آپ سے تم پر آنے میں تمھیں زیادہ وقت نہیں لگا۔محرم اصل میں باڈی گارڈ ہی ہوتا ہے۔ میں نے میاں جی سے کئی بار پوچھا میں اکیلے کیوں نہیں عمرے پر جا سکتی۔ وہ کہنے لگے : ’شہزادیوں کے ساتھ محافظ ہوتے ہیں میں تمھیں کیوں یہ سب بتا رہی ہوں…؟“ عترت نے بھرائی ہوئی آواز میں کال کاٹ دی۔ ضرار صوفے پر بیٹھ گیا۔ بیڈ روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ضرار اپنی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ دستک پھر سے ہونے لگی۔ضرار کو اب بھی پتہ نہیں چلا۔ دستک زور زور سے ہونے لگی :
” ہاں … کون ہے … آ جاؤ۔“ ضرار نے چونک کر کہا۔ ایک پچاس سالہ ملازمہ بیڈ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولی :
” صاحب کھانا …؟“
”کھانا …؟“ ضرار نے سوچتے ہوئے کہا۔
” آپ نے دوپہر ایک بجے ناشتہ کیا تھا۔“ ملازمہ نے بتایا۔ ضرار نے لمحہ بھر سوچا پھر کہنے لگا :
”تم کھانا لگاؤ میں آتا ہوں۔“ ملازمہ چلی گئی۔ چند منٹ بعد ضرار بھی ڈائننگ ہال میں کھانا کھانے پہنچ گیا۔ اُس کا ہاتھ نوالے منہ میں ڈال رہا تھا اور دانت چبا رہے تھے۔ اُس کا دماغ عترت کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ضرار کی بے شمار دولت کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں اُس سے دوستی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں۔ عترت نہ تو ضرار سے متاثر ہوئی اور نہ ہی اُس کی دولت سے۔
ضرار کی اَنا کو یہ بات بار بار ڈس رہی تھی۔اُس نے کھانے سے پیٹ بھر لیا مگر اُس کی بھوک بڑھ گئی۔ ضرار اپنے بیڈ روم میں لوٹا، وہ بے چین تھا۔ اُس نے عترت کا نمبر ملایا :
” السلام علیکم “ عترت نے کہا۔
” مجھے آپ کی دوسری شرط بھی منظور ہے۔“ ضرار کی بات سننے کے بعد بھی عترت خاموش تھی۔ ضرار نے خاموشی کو توڑا :
”اور بھی کوئی شرط ہے تو بتا دیں۔“
”شرط تو نہیں ایک بات ہے۔“ عترت نے کہا۔
”جی فرمائیں ! “ ضرار ہلکے سے طنز کے ساتھ بولا تھا۔
”ابھی تم میری اتنی ہی عزت کرو۔ جتنی ساری زندگی کر سکتے ہو۔“ عترت یہ بول کر خاموش ہوئی تو ضرار نے فٹ سے پوچھ لیا :
” وہ بات کیا تھی … ؟“
”یہی بات تھی … میں تمھیں تم کہتی ہوں اور تم سے تُو پر کبھی نہیں آؤں گی۔ تم ! آپ اور تم میں سے ابھی کسی کو چُن لو۔“
”آپ … “ ضرار نے بات کاٹتے ہوئے بتایا، ساتھ ہی اپنے دل کی آرزو بھی بتا دی :
”میں چاہتا ہوں ہم کل نکاح کر لیں۔“
”اتنی جلدی کیوں نکاح کرنا چاتے ہو…؟“
”محبت ہو گئی ہے آپ سے۔“ ضرار نے جلدی سے عترت کے سوال کا جواب دیا۔
”ٹھیک ہے۔ کل دوپہر کو تم میاں جی، لانگری اور علی بخش کو لے کر میرے گھر آ جاؤ۔“ دو گواہ محلے سے ہو جائیں گے۔“ عترت نے کہا۔
”مطلب میں اپنی طرف سے کسی کو نہیں لا سکتا؟“ ضرار نے شکایتی انداز میں پوچھا۔
” میں نے کب منع کیا … ؟ حق مہر کی رقم ساتھ لے کر آنا۔کل ملاقات ہوتی ہے۔“ عترت نے یہ سب کہہ کر، کال کاٹ دی تھی۔
ضرار سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اپنے بیڈ پر کمر کے بل لیٹ گیا۔
” کیا تلاش کر رہا ہوں میں …؟“ کیوں عترت سے شادی کرنے لگا ہوں …؟“ ضرار نے دل ہی دل میں خود سے پوچھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا، پھر کھڑے ہوتے ہوئے اُس نے خود کلامی کی :
” کوئی لڑکی اتنی حسین بھی ہو سکتی ہے کیا …؟“
#####
Episode #3
اگلی قسط کے لئے لنک پر کلک کر کے ہماری ویبسائٹ وزٹ کیجئے گا
زیرک زن ( شکیل احمد چوہان )
Next Episode | Read All Episode | Previous Episode |
Click Below For Reading More Novels
No comments:
Post a Comment