***

Hello Guys !! You Can Comment Here For Suggestion And Whatever You Want To See Here Because We Respect Our All Users . Best Wishes . Good Luck

Sunday, December 18, 2022

Zeerak Zann Episode #2 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels | Sad _ Emotional Novel

Zeerak Zann Episode #2 By Shakeel Ahmed Chouhan



Zeerak Zann Episode #2 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels | Sad _ Emotional Novel

 زِیرک زَن-قسط نمبر 2


Episode #2

میاں جی نماز پڑھ کر لوٹے ہی تھے ضرار نے فٹ سے بے تکلفی کے انداز میں سوال داغ دیا
”آپ نے اُن سے دو لاکھ کیوں لیے … ؟“
میاں جی نے معزز سنجیدگی کے ساتھ ضرار کی طرف دیکھا۔ ضرار نے اپنا لہجہ بہتر کرتے ہوئے بڑے ادب کے ساتھ بات کا رُخ بدل دیا :
”آپ نے یہ کیوں فرمایا بہشت میں رہنے والے۔“
”راؤ صاحب تمھارے لیے دنیا میں بہشت ہی تو بنا کر گئے ہیں۔


”پاپا کو تو ہارٹ اٹیک ہوا تھا … ماما کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئیں۔“
”اُن دونوں کی موت کو چار مہینے ہو چکے ہیں۔ تم آج بھی اُسی سوال میں اُلجھے ہوئے ہو !“

”میری اُلجھن دور کر دیں … مجھے بتا دیں یہ روح کیا ہوتی ہے؟ جس کے نکلتے ہی انسان مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ جیسے ہی پاپا کا جنازہ اُٹھایا گیا… ماما کی اُدھر بیٹھے بیٹھے ہی روح نکل گئی تھی؟“
ضرار کیا پوچھنا چاہتا تھا اُسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔

”اہل سے چھپانا اور نا اہل کو بتانا دونوں ہی جرم ہیں… خوشی میں اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا اور غم میں اپنی نشست سے اُٹھ جانا دونوں عمل غلط ہیں۔“
”خوشی اور غم والی بات میں نہیں سمجھا ! “ ضرار نے میاں جی کے خاموش ہوتے ہی پوچھ لیا تھا۔
”خوشی میں ٹھہرتے نہیں اور غم سے بھاگتے نہیں۔“ میاں جی کے بولنے کے دوران ہی چادر میں لپٹی ایک پری چہرہ دوشیزہ اُن کے حجرے میں داخل ہوئی۔

میاں جی کی اُس پر نظر پڑی تو وہ ادباً کھڑے ہو گئے۔ ضرار حیران ہوا، اُس نے دل میں سوچا :
”میاں جی تو بڑے بڑے تاجروں، وزیروں، افسروں کے آنے پر کبھی کھڑے نہیں ہوئے اور آج اس لڑکی کے احترام میں کھڑے ہو گئے ہیں۔“
”جھوٹے ہیں آپ !“ لڑکی نے تابڑ توڑ لہجے میں جب یہ کہا تو ضرار کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، اُس نے جھرجھری لی۔
”دین کو سب سے زیادہ گھاؤ میرے جیسے دین فروشوں نے ہی تو لگائے ہیں۔

میاں جی کی بات سننے کے بعد لڑکی نے لمحہ بھر اپنے تین لفظوں پر غور کیا پھر قدرے نرم لہجے میں کہنے لگی :
”پتہ نہیں کون ہیں وہ … ؟ جن کو آپ کی پھونکوں سے شفا مل جاتی ہے۔“ میاں جی نے لڑکی کی بات سننے کے بعد ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا :
”انسان کی سانس مکڑی کے جالے سے بھی نازک ہوتی ہے۔ اب جالا تو جالے کی حفاظت کرنے سے رہا۔“
”چلتی ہوں میں۔

“ لڑکی بے زاری سے یہ کہتے ہوئے مڑی۔
”عترت بیٹی ! چند گھڑیاں میرے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔“ میاں جی کے انداز میں خلوص اور شائستگی تھی۔
”میرا مسئلہ تو آپ سے حل نہیں ہوتا۔“ عترت نے بیٹھتے ہوئے شکوے سے بھرپور لہجے میں کہا تھا۔ میاں جی بھی بیٹھ گئے۔ ضرار بڑے غور سے عترت اور میاں جی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یک لخت عترت قہقہے لگانے لگی۔

ضرار نے عترت کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں کہا :
”حسین کے ساتھ ساتھ پاگل بھی ہے“
 میاں جی عترت کی بے بسی دیکھتے ہوئے کہنے لگے :
”کچھ قہقہوں میں بھی درد ہوتا ہے عترت بیٹی!!‘
”تو میرے درد کا مداوا کریں نا۔“ عترت نے بڑی حسرت سے کہا۔ میاں جی سوچ میں پڑ گئے پھر ضرار کی طرف دیکھنے کے بعد بولے :
”میں کسی سے قرض لے کر اگر تمھیں دوں تو … ؟“
”آپ کو سات کروڑ کون دے گا…؟“ عترت نے درد بھری آواز میں پوچھا تھا۔

ضرار نے فٹ سے بتایا :
”میں ! “ عترت نے بڑے غور سے ضرار کی طرف دیکھا سانولی رنگت اور بڑی مونچھوں والا ایک لڑکا جو سرمئی رنگ کا ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ عترت نے ہلکے سے طنز کے ساتھ بتایا :
”سات ہزار نہیں سات کروڑ بولے ہیں میں نے ! “
”پاپا ! اربوں کی جائیداد چھوڑ کر گئے ہیں اور میں اُس جائیداد کا اکلوتا وارث ہوں۔“ ضرار نے عترت سے نظریں ملاتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے اطلاع دی۔

عترت نے لمحہ بھر سوچا پھر ضرار سے سوال کیا :
”میاں جی ! اگر سات کروڑ واپس نہ کر سکے تو …؟“
” ماما، پاپا کہا کرتے تھے، یہ سب ہمیں میاں جی کے طفیل ہی ملا ہے۔ “
”مطلب میاں جی کے طفیل کو اپنے مال کا صدقہ دینا چاہتے ہو۔“ ضرار کو عترت کی بات کی سمجھ نہیں آئی وہ کہنے لگا : ” میں سمجھا نہیں۔“ ضرار کی بات سننے کے بعد عترت نے میاں جی کی طرف ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا :
”واہ میاں جی ! بڑے بڑے مال دار مریدین ہیں آپ کے ۔

”شاہ چانن کا فیض ہے بیٹی ! “ میاں جی کی بات سنتے ہی عترت کی بجھی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔ اُس سے پہلے کہ عترت کی آنکھوں میں چمک کی جگہ نمی آتی وہ کہنے لگی :
”میاں جی ! ایک دلہن کا جوڑا دینا ہے مجھے اجازت دیں۔“
”کیسے جاؤ گی؟“ میاں جی نے فکر مندی سے پوچھا۔
”جیسے آئی تھی … پیدل پیدل ! “
”تقریباً سات کلو میٹر بنتے ہیں۔“ میاں جی نے خبر دی۔


”آپ بھی تو روز پیدل ہی شاہ چانن سے ملنے آیا کرتے تھے۔“ عترت نے یاد کرایا۔
”تم عترت شاہ ہو۔ وہ شاہ چانن تھے اور میں کچھ بھی نہیں۔“ میاں جی نے بڑی عاجزی سے بتایا، پھر ضرار کی طرف دیکھ کر بولے :
” ضرار ! تم عترت کو گھر چھوڑ دو پھر اُدھر سے ہی ڈیفنس چلے جانا۔“
”چھوڑنا کدھر ہے …؟“
”مقبرہ جہانگیر کے پاس راوی کلفٹن کا علاقہ ہے۔

“ میاں جی نے بتایا۔
عترت اور ضرار نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر دونوں حجرے سے باہر آ گئے۔ ڈیرے سے نکل کر کار کے پاس آکر ضرار نے عترت کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔ عترت نے ضرار کے پہلو میں بیٹھنے کی بجائے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ وہ خود ہی کار کا پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی تھی۔ میاں جی اپنے ڈیرے کے بیرونی دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے تھے۔

انھوں نے ضرار کو پکارا :
”ضرار بیٹا ! اِدھر آؤ!“ ضرار نے سنا تو وہ فٹ سے میاں جی کے پاس آ گیا۔ میاں جی بڑی سنجیدگی سے بتانے لگے :
”عبادت گزار سید زادی ہے ! میرے مرشد شاہ چانن کی پوتی۔ بے ادبی کی معافی نہیں۔“
”جی میاں جی ! میں اِسے چھوڑ کر پھر آپ کے پاس ہی آ جاؤں… ؟“ ضرار نے بڑے ادب سے درخواست کی۔
”ٹھیک ہے۔“ میاں جی یہ بول کر، اپنے عام سے موبائل پر ایک نمبر ملاتے ہوئے مسجد کی طرف چل دیے۔


###
”کیا بیماری ہے آپ کو … ؟“ ضرار نے کار میں بیٹھنے کے بعد سیٹ بیلٹ لگاتے ہوئے پوچھا۔
”کینسر…“ عترت نے آرام سے بول دیا۔
”کینسر…؟ کون سا کینسر…؟“
”پتہ نہیں… رپورٹس میں لکھا ہے کینسر کا نام“ عترت نے اُکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا۔ ضرار جلدی سے بولا :
”شوکت خانم میں چیک کروانا تھا۔“
”میاں جی نے آپ کو مجھے چھوڑنے کے لیے کہا ہے۔

مشورہ دینے کے لیے نہیں۔“ عترت روکھے لہجے میں بولی۔ ضرار نے شرمندگی چھپاتے ہوئے کار اسٹارٹ کر لی۔ چند منٹ بعد وہ شرقپور روڈ پر تھے۔ پھول منڈی والے چوک سے گزرتے ہوئے عترت نے پھولوں کی دُکانوں کی طرف بڑی حسرت سے دیکھا ضرار سنٹر والے مرر میں اُسے ہی دیکھ رہا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بول پڑا:
”لگتا ہے پھول کافی پسند ہیں آپ کو!“
”بہت … “ عترت کے منہ سے نکل گیا۔

ضرار نے فوراً سڑک کنارے اپنی کار روکی اور جلدی سے اُتر کر سڑک پار کرتے ہوئے پھولوں کی دکانوں کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دیر بعد ضرار پھولوں کے ایک بکے اور دو گجروں کے ساتھ لوٹا۔ کار میں بیٹھنے کے بعد اُس نے یہ سب عترت کو پیش کرتے ہوئے کہا :
” آپ کے لیے۔“
”لائن مار رہے ہو!“ عترت نے بکّے اور گجرے پکڑنے کی بجائے تیکھے انداز میں کہا تھا۔


”لڑکیوں کی کمی نہیں ہے مجھے ! “ ضرار نے سنجیدگی سے بتایا۔
”جانتی ہوں … ترس کھا رہے ہو مجھ پر … ؟“ عترت نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ضرار نے کوئی جواب نہیں دیا، اُس نے بکے اور گجرے اپنی برابر والی سیٹ پر رکھ دیے پھر کار ڈرائیو کرنے لگا۔ کار کے شیخوپورہ روڈ پر چڑھتے ہی عترت بول پڑی :
”تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔“
” میاں جی نے کہا تھا بے ادبی کی معافی نہیں ہے۔

”کیا مطلب …؟“ عترت نے فٹ سے پوچھا۔
”آپ میاں جی کے مرشد شاہ چانن کی پوتی ہو ! چار مہینے ہو گئے مجھے میاں جی کے پاس آتے ہوئے وہ کبھی کسی کے لیے کھڑے نہیں ہوئے سوائے آپ کے!“ عترت کے ہونٹوں پر معزز مسکراہٹ اُبھری، اُس نے اُسی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا :
”چار مہینے سے روز آ رہے ہو…؟“
”جی ! “
”کیوں … ؟“
”مرتے وقت پاپا نے کہا تھا میاں جی کے پاس ہفتے میں ایک بار ضرور چکر لگایا کرنا۔

”تم تو روز چکر لگا رہے ہو۔“
”ہماری فیکٹری اسی روڈ پر ہے۔ فیکٹری آتے جاتے میاں جی کی طرف چکر لگا لیتا ہوں۔“ ضرار نے میٹرو بس اسٹیشن کے بالمقابل Shell کے پٹرول پمپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے پوچھا :
”اب کدھر جانا ہے۔“
”سیدھا… آگے جو چوک آئے گا، اُس سے اُلٹے ہاتھ۔ پھاٹک کراس کرنے کے بعد تھوڑا آگے مقبرہ جہانگیر ہے۔“
ضرار نے مقبرہ جہانگیر کے مرکزی دروازے کے سامنے جا کر کار روک دی۔


”شکریہ!“ عترت نے کار سے اُترتے ہوئے کہا۔ وہ واپس پیدل پھاٹک کی طرف چل دی۔ ضرار اُسے سینٹر والے مرر میں دیکھنے لگا۔ جب عترت نظروں سے اوجھل ہونے لگی تو ضرار نے جلدی سے کار گھمائی اور عترت کا تعاقب کرنے لگا۔ عترت ایک گلی میں داخل ہو گئی۔ ضرار نے اُس گلی کے سامنے بریک لگائی عترت غائب تھی۔
###
مغرب کی اذان کے بعد ضرار میاں جی کے حجرے میں واپس پہنچا۔

ایک خاتون کے ساتھ جوان لڑکی اور دس گیارہ سال کا لڑکا میاں جی کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ضرار بھی بغیر کچھ بولے حجرے کے ایک کونے میں قالین پر بیٹھ گیا پھر اُس نے نظر بھر کے اُس لڑکی کو دیکھا اور دل میں کہا :
”عام سی ہے۔“
”آگئی ہو مختاراں بی بی ! “ میاں جی نے حجرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
” جی میاں جی “ مختاراں نے کھڑے ہوتے ہوئے بڑے ادب سے بتایا۔

لڑکی، لڑکا اور ضرار بھی کھڑے ہو گئے تھے۔
میاں جی نے اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر میاں جی نے میز کی دراز سے وہ خاکی لفافہ نکالا اور مختاراں کو دیتے ہوئے کہنے لگے :
” یہ لو مختاراں بی بی … شادی میں کام آئیں گے۔“ میاں جی کے منہ سے شادی والا جملہ سنتے ہوئے لڑکی شرمائی۔
”میاں جی ! اللہ آپ کا دو جہانوں میں بھلا کرے۔

“ آپ نے اس بیوہ کی لاج رکھ لی۔“ مختاراں نے اپنی چادر کی جھولی بناتے ہوئے کہا۔ لڑکے نے آگے بڑھ کر میاں جی کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ میاں جی اُس لڑکے کو تھپکی دیتے ہوئے بولے :
”دل لگا کے میرا پُتر پڑھ!“
”جی میاں جی “ لڑکے نے بڑے جذبے سے کہاتھا۔
وہ تینوں وہاں سے چلے گئے۔
” پیسے کیسے دوں آپ کو … ؟“ ضرار نے پوچھا۔
”کون سے پیسے …؟“ میاں جی نے سوال کیا۔


” وہ سات کروڑ“ ضرار کی بات سن کر میاں جی کے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ اُبھری وہ کہنے لگے :
”وہ مر جائے گی مگر کسی کے پیسوں سے علاج نہیں کروائے گی!“
”کیوں … ؟“ ضرار نے فٹ سے پوچھا۔
” وہ کُن فیکون پر یقین رکھتی ہے۔“
”مطلب … ؟“ ضرار نے کہا۔
”اُس کا ماننا ہے کہ اللہ کے چاہنے ہی سے سب کچھ ہوتا ہے۔ “
”یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے … ایک دن آپ نے ہی فرمایا تھا“ ضرار نے میاں جی کو یاد کرایا۔


” وہ اسباب کو مانتی ہے … اِسی لیے تو علاج کروا رہی ہے۔“
”میں بھی تو علاج ہی کے لیے پیسے دینا چاہتا ہوں۔“ ضرار نے سنجیدگی سے بتایا۔
”کس حیثیت سے …؟“ میاں جی نے پرکھتی نظروں کے ساتھ پوچھا۔ ضرار سوچ میں پڑ گیا۔ تھوڑی دیر حجرے میں خاموشی رہی پھر ضرار ہی حتمی لہجے میں بول اُٹھا :
”میں عترت سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“
”پاکستانی ڈاکٹروں نے اُسے بتایا ہے کہ اگر اُس نے باہر سے اپنا علاج نہ کروایا تو وہ چند مہینوں کی مہمان ہے۔

”میں اُس کا علاج کرواؤں گا۔“ضرار نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ میاں جی نے بغور ضرار کی طرف دیکھا جیسے اُس کا جائزہ لے رہے ہوں۔
” ٹھیک ہے میں بات کروں گا اُس سے۔“
”چلیں … میں آپ کو لے چلتا ہوں۔“ ضرار نے فوراً کہا۔
” ترس کھا رہے ہو …؟‘ یا عترت کے حسن پر لٹو ہو گئے ہو …؟“ میاں جی نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ ضرار نظریں چرانے لگا۔

میاں جی قدرے سنجیدگی سے بولے :
” راؤ صاحب ! نے تمھاری رنگین مزاجی کا ذکر کیا تھا میرے ساتھ۔“ ضرار نے میاں جی کی طرف چونک کر دیکھا، میاں جی پہلے ہی سے اُس پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ شرمندگی ضرار کے چہرے پر آ ٹپکی۔ اُس نے نظریں جھکا لیں۔
”اگر عترت کی عزت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں تمھیں کبھی شرمسار نہ کرتا۔“ میاں جی کی بات سنتے ہی ضرار نے نظریں اُٹھا کر اُن کی طرف دیکھا۔


” ایک لڑکی جس کی زندگی کا کوئی بھروسا نہیں اُس سے کیوں کرنا چاہتے ہو شادی …؟“ میاں جی کے پوچھتے ہی ضرار نے فٹ سے جواب دیا :
”بھروسہ تو کسی کی زندگی کا بھی نہیں۔“
”آج پہلی بار لگا کہ تم راؤ صاحب کے بیٹے ہو۔“ میاں جی ستائشی انداز میں بولے تھے۔ جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ضرار نے اگلی بات پوچھ لی :
”اگر پاپا آپ کو یہ رشتہ کروانے کے لیے کہتے تو … ؟“ میاں جی اپنی گردن کو کبوتر کی طرح ہلاتے ہوئے کہنے لگے :
”میرے مرشد شاہ چانن کا ایک ہی بیٹا تھا شاہ زمان۔

اُس نے مرشد کے سمجھانے کے باوجود علاقے کی ایک بدنام خاتون کی بیٹی صنم سے شادی کر لی۔ صنم چار سالہ عترت کو چھوڑ کر ایک مال دار پٹھان کے ساتھ بھاگ گئی۔
میری شریکِ حیات ”مطوفہ “ تب زندہ تھی وہ عترت کو اپنے ساتھ لے آئی۔ وہ سلائی کڑھائی کی کاریگر تھی۔ اُسے دیکھ دیکھ کر عترت کو بھی شوق پیدا ہو گیا۔ میٹرک کے بعد عترت نے مزید پڑھنے کی بجائے سلائی کڑھائی کے ہی کورس کیے۔

مطوفہ کے مرتے ہی وہ مجھے کہنے لگی :
” میاں جی! میں شاہ چانن کے علاقے میں ہی جا کر رہنا چاہتی ہوں۔“ میں نے پوچھا :
”کیوں …؟“ تو بولی :
”میں اپنے ماں باپ کی بیٹی نہیں … صرف شاہ چانن کی پوتی ہوں۔“
” تو پھر بیٹی کس کی ہو … ؟“ میں نے سوال کیا، تو کہنے لگی :
”آپ کی بیوی اماں مطوفہ کی۔“
” اُس نے میری بیوی کو تو اپنی ماں مان لیا تھا مگر مجھے اپنا باپ نہیں…“ میاں جی بات کرتے ہوئے رُک گئے چند گھڑیاں گزر گئیں۔


”آپ کو باپ کیوں نہیں مانا اُس نے …؟“ ضرار نے ہولے سے پوچھا۔ میاں جی ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہنے لگے :
”عترت سمجھتی ہے کہ میں نے اُس کے باپ کی خلافت چھین لی تھی۔“ میاں جی کے چپ ہوتے ہی ضرار نے یک لخت پوچھ لیا :
”آپ نے چھینی تھی خلافت کیا … ؟“
”خلافت چھینی جا سکتی ہے، فقیری نہیں۔ میں توفقیر ہوں۔ مرشد کا جب آخری وقت آیا تو انھوں نے اپنے سینکڑوں مریدین کے سامنے شاہ زمان کی جگہ مجھے اپنا خلیفہ بنا دیا۔

مرشد کے اس فیصلے پر شاہ زمان نے بڑا احتجاج کیا۔“ میاں جی خاموش ہو گئے مگر ضرار کا تجسس ابھی برقرار تھا اُس نے پوچھا :
”پھر …؟“
”پھر مرشد دنیا سے چلے گئے… مریدین میری جگہ شاہ زمان کو خلیفہ ماننے پر تیار نہیں تھے۔“
”آپ بنائیں گے اپنے بیٹے کو اپنا خلیفہ “ ضرار نے تھوڑی جھجھک کے ساتھ پوچھا۔
یکایک میاں جی کے چہرے پر کئی رنگ آئے اور چلے گئے۔


”میری تو اپنی اولاد ہی نہیں ہے۔“ میاں جی نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا۔ ضرار کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
” ماما، پاپا ! تو کہا کرتے تھے میں آپ کی دعا سے پیدا ہوا ہوں۔“ ضرار کی خبر پر میاں جی کے منہ سے نکلا :
”دعا … ؟“
ہاں دعا … کیا ہے دعا … کئی مہینوں سے پوچھ رہا ہوں“ ضرار نے جلدی سے کہا۔ میاں جی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔

ضرار لہجے میں طنز کا رس بھر کے کہنے لگا :
”چار مہینے سے آپ روح کے بارے میں بھی کوئی حتمی جواب دے نہیں سکے۔“
”دعا کے چکر میں دوا بھول گیا۔ علی بخش بیمار ہے اُسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔“ میاں جی نے بات بدل دی۔
” علی بخش وہ آپ کا خادم …؟“ ضرار نے پوچھا۔
”خادم نہیں ساتھی …! “ میاں جی نے سنجیدگی سے کہا۔
” اُس کی بیماری آپ کی پھونکوں سے دور نہیں ہوتی کیا …؟“ ضرار نے طعنہ دیا۔

میاں جی اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے۔ ضرار نے فٹ سے پوچھا :
”کدھر چل دیے آپ … ؟“
” بتایا تو ہے !“
” میں ساتھ چلوں…؟“
” مرضی ہے تمھاری۔“ میاں جی یہ بول کر علی بخش کے حجرے کی طرف چل دیے۔ ضرار نے اُن کی تقلید کی۔
علی بخش کے حجرے میں وزیر لانگری، ملنگ اور ایک لڑکا علی بخش کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ میاں جی کو دیکھتے ہی وہ تینوں کھڑے ہو گئے۔ میاں جی نے لڑکے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”آج بخار ٹوٹ گیا ہے“ لڑکے نے بتایا۔ میاں جی نے بڑی محبت سے علی بخش کی طرف دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا :
” اب ٹھیک ہوں، میاں جی ! “
”ایک بار ڈاکٹر کو دکھا لیتے ہیں۔“ میاں جی نے کہا۔ علی بخش اُٹھتے ہوئے بولا :
” جی بہتر۔“

Episode #2

اگلی قسط کے لئے لنک پر کلک کر کے ہماری ویبسائٹ وزٹ کیجئے گا


مزید درد _ جدائی ناول پڑھنے کے لئے نیچے تصویر پر کلک کریں


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

زیرک زن ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Zeerak Zann Mann K Mohally Main Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment