Pages

Saturday, December 31, 2022

Mann K Mohally Main Episode #6 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels

Mann K Mohally Main Episode #6 By Shakeel Ahmed Chouhan




Mann K Mohally Main Episode #6 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels

من کے محلے میں


Episode #6


”بیگم صاحبہ! اب آپ بھی مزمل صاحب کا کہیں رشتہ کر دیں“
بلقیس نے دودھ کا گلاس ممتاز بیگم کو پیش کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ تجویز بھی پیش کر دی۔
”اُس کے سامنے مت کہہ دینا…تیرا بھی لحاظ نہیں کرے گا“ ممتاز بیگم نے دودھ کا گھونٹ لیتے ہوئے بلقیس کو خبر دار کر دیا۔
”جی بیگم صاحبہ! ایک بات کی سمجھ نہیں آتی مزمل صاحب کو شادی سے اتنی نفرت کیوں ہے؟“
”بلقیس! تو بھی کملی ہے… تجھے ساری بات کا تو پتہ ہے پھر بھی یہ سوال پوچھ رہی ہے“ ممتاز بیگم نے دکھی ہو کر کہا ۔


”بیگم صاحبہ! مزمل صاحب وہ سب بھول کیوں نہیں جاتے“
”کیسے بھول جائے … بلقیس !…کیسے بھول جائے…؟“ ممتاز بیگم نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بیڈ کی ٹیک سے سر لگا کر ٹھنڈی سانس لی۔

”جیسے اپنی عشال بھول گئی ہے…اُس کی حکیم صاحب نے منگنی بھی کر دی ہے… لڑکا ولایت میں ہوتا ہے۔ سنا ہے پانچ چھ مہینے بعد نکاح ہے۔ نکاح کے بعد وہ عشال کے کاغذ ساتھ لے جائے گا۔

جیسے ہی عشال کے ویزے کا بندو بست ہوگا وہ بھی ولایت چلی جائے گی۔ بلقیس نے ساری تفصیل بتائی۔
”مزمل اُن سے ملا تھا“ممتاز بیگم نے پوچھا۔
”باذلہ کو جی صحیح پتہ ہے…میں تو عورتوں ہی کی طرف رہی تھی…ہاں یاد آیا نکاح تو اپنے حکیم صاحب ہی نے پڑھوایا تھا…حکیم صاحب سے تو ملا ہے۔“
”عاقل اورعشال کے بارے میں جانتا ہے…؟“
”پتہ نہیں جی…“ بلقیس نے لا علمی ظاہر کی۔


”بارات کے ساتھ بھیجا تو اِسی لیے تھا کہ اُن کے متعلق جان جائے۔“
”آپ خود کیوں نہیں بتادیتیں …؟“
”میں اِس بارے میں بات کروں تو اُٹھ کر چلا جاتا ہے۔ پھر کئی کئی دن میرے ساتھ بھی موڈ بنائے رکھتا ہے“ممتاز بیگم نے افسردگی سے کہا ۔کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور مزمل دروازے سے باہر ممتاز بیگم کے سامنے کھڑا تھا۔ ممتاز بیگم نے دیکھا تو مزید بات نہیں کی۔

مزمل اندر آتے ہوئے بولا:
”کون موڈ بنا کر رکھتا ہے“
”کوئی نہیں اپنی بلقیس باسط کی بات کر رہی تھی“ ممتاز بیگم نے بات گول کر دی۔ مزمل نے بلقیس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
”آپ جائیں ! گھر میں بہو آئی ہے۔ اُسے ناشتہ وغیرہ کروائیں“
”باذلہ نے جی اُنہیں ناشتہ کروادیاہے ۔ بیگم صاحبہ کا خیال رکھنے کے لیے کسی کو تو ہونا چاہیے تھا۔ میں جاتی ہوں اورباذلہ کو بھیجتی ہوں کہ وہ آپ کا ناشتہ بھی تیار کر دے“
بلقیس جلدی سے چلی گئی ۔


”میں رات کو دو دفعہ آیا تھا۔ آپ سو رہی تھیں“ مزمل نے اپنی دادی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے بتایا۔
”آ ج جلدی اُٹھ گئے“دادی نے پوچھا۔
”ہاں…میں نے اسلام آباد کے لیے نکلنا ہے“
”باسط کے ولیمے میں شرکت نہیں کروگے“ دادی نے سوال کیا۔
”دادو! آپ کے کہنے پر بارات کے ساتھ چلا گیا تھا…یہ کافی نہیں“
”میرا خیال ہے…زندگی میں پہلی بار تم نے کسی شاد ی میں شرکت کی ہے“
”آخری بار بھی …میں چلتا ہوں…مجھے دیر ہو رہی ہے“مزمل جلدی سے دادی کے بیڈ روم سے نکل آیا اُسے اندازہ تھا اب دادی بات سے بات نکال کر گھوم پھر کر اُس کی شادی کی بات کریں گی۔


#…#
”آپی! کل شادی میں مزہ آیا نا…“ مومنہ نے پراٹھے کا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے ماہم سے پوچھا ۔
”ہوں…“ ماہم نے اپنی کلائی کی خراشیں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ سفید پٹی اُس نے فجر کی نماز کا وضو کرتے وقت اُتار دی تھی۔
”یہ تمھاری کلائی پر کیا ہوا ہے“مریم بی بی کی جیسے ہی نظر پڑی اُس نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور فکر مندی سے ماہم کی کلائی دیکھنے لگی۔


”کچھ نہیں…امّی جی…گر گئی تھی…چوڑیاں ٹوٹ کر لگی ہیں“ ماہم نے اطمینان سے بتایا۔
”اور تو کوئی چوٹ نہیں آئی…“مریم بی بی نے جلدی سے پوچھا۔
”امّی جی! آپ ناشتہ کریں میں بالکل ٹھیک ہوں“ ماہم نے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کو تسلی دی۔
”امّی جی! …آپی کی شادی شمعون سے مت کریں …وہ اچھا لڑکا نہیں ہے“مومنہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔

مریم بی بی اور ماہم نے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ مریم بی بی تو خاموش رہی مگر ماہم بول پڑی :
”مومنہ …! دیکھو تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے۔ ابّو جی نے یہ نسبت طے کی تھی اور مجھے کسی قیمت پر بھی اُن کی زبان کا پاس رکھنا ہے۔ دوسری بات شمعون تم سے بڑا ہے ۔ اُسے بھائی کہا کرو۔“ ماہم نے شگفتگی سے مومنہ کو سمجھایا۔
#…#
”بھائی! ناشتہ تیار ہے۔

نیچے آجائیں جلدی سے…“
باذلہ آئی اطلاع دی اور چلی بھی گئی۔ مزمل آئینے کے سامنے کھڑا ہوا ٹائی باندھ رہا تھا۔ اُس نے اپنا بریف کیس اُٹھایا اور ڈائنگ ہال کی طرف چل دیا۔
ممتاز بیگم ناشتے کی میز پر اُس کا انتظار کر رہی تھیں۔
”دادو…!“ مزمل نے جھکتے ہوئے اپنی دادی کے گال سے بوسہ لیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”دادو! شروع کریں نا…“ مزمل نے ناشتہ شروع کرنے سے پہلے اپنی دادی کو دعوت دی، پھر ناشتے میں مصروف ہوگیا دادی غور سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔


”سفر پر جا رہے ہو…غصہ بھی نہیں کروگے اور اپنا موڈ بھی ٹھیک رکھو گے…“ مزمل نے ناشتے سے توجہ اپنی دادی کی طرف مبذول کی۔
”شادی کرلو…“دادی نے رُندھی ہوئی آواز کے ساتھ کہا اور کافی دیر مزمل کو چشم الفت سے دیکھا ۔
مزمل خاموش رہا، اُس نے اپنا ناشتہ مکمل کیا دادی کا بوسہ لیا اور پورچ کی طرف چلا گیا۔
وہاں اُس نے اپنی گاڑی پر نظر ڈالی سفید مرسڈیز اب بھی بناؤ سنگھار کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔

اُ س کی چابی اُس کے ہاتھ میں تھی۔ جبکہ بلیک ٹویوٹا ویگو سادگی سے ۔وہ کچن کی طرف چل دیا۔
”باذلہ…!کیا حنیف گاڑی کی چابی دے گیا ہے؟“ مزمل نے کچن میں برتن دھوتی ہوئی باذلہ سے پوچھا۔
”جی بھائی! میں ابھی لے کر آئی“ باذلہ جلدی سے گاڑی کی چابی لے کر آگئی۔
”یہ لیں … بھائی…!“ باذلہ نے گا ڑی کی چابی دیتے ہوئے کہا۔
”باذلہ…!حنیف آئے تو اُس سے گاڑی صاف کروا لینا“ مزمل نے مرسڈیز کی چابی باذلہ کو دیتے ہوئے کہا۔


”حنیف … آپ کے ساتھ نہیں جا رہا …؟“باذلہ فکر مندی سے بولی۔
”نہیں…!“ مزمل نے مختصر سا جواب دیا اور پورچ کی طرف چل پڑا۔ باذلہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑی باذلہ چلتے چلتے بولی:
”بھائی…! اتنا لمبا سفر آپ خود ڈرائیو کریں گے۔“
”کل بھی تو کی تھی…“
”کل تو ہم…گوجرانوالہ سے تھوڑا سا آگے ہی گئے تھے آ ج تو آپ اسلام آباد جا رہے ہیں“
”حنیف تو تم لوگوں کے ساتھ ہوگا“
”وہ تو ٹھیک ہے ا ٓپ فیکٹری سے کوئی دوسر ا ڈرائیور اپنے ساتھ لے جائیں“
”باذلہ…! فکر مت کرو … مجھے گاڑی چلانا آتی ہے“ مزمل نے چہرے پر تبسم لاتے ہوئے بتایا۔

پھر وہ گاڑی لے کر اسلام آباد کے لیے نکل گیا۔
#…#
”امّی جی! کل جو دُلہن کی کار ڈرا ئیو کر رہا تھا، عشال آپی بتا رہی تھی ہمارا ریلٹو ہے۔ لندن سے MBAکیا ہے اُس نے“مومنہ نے چہکتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی عشال نے ہی بتایا ہوگا“ ماہم نے تُرش لہجے سے پوچھا، جو کپڑے پریس کر رہی تھی۔
”ڈیشنگ، سمارٹ، ڈیسنٹ، شادی تو ایسے بندے سے کرنی چاہیے“ مومنہ آنکھوں میں سپنے سجائے بولی۔


”یہ کس نے کہا تھا…؟“ مریم بی بی نے مسکراتے ہوئے پوچھا، و ہ کپڑوں کو الماری میں ہینگ کر رہی تھی۔ ماہم نے اپنی ماں کی طرف ناراضی سے دیکھا۔
”مومنہ! تم جاؤ اور امّی جی کے کپڑے لے کر آؤ وہ بھی پریس کردوں … بعد میں لائٹ چلی جائے گی“ ماہم نے کچھ خفگی سے کہا۔ مومنہ کپڑے لینے چلی گئی۔ مریم بی بی نے ماہم کی طرف ٹٹولتی نظروں سے دیکھا۔
”امّی جی! آپ بھی نا…وہ ابھی چھوٹی ہے…اُس کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کریں“ ماہم کی توجہ استری پر تھی پر وہ بولے جا رہی تھی۔

مریم بی بی نے کپڑے رکھے اور کرسی پر بیٹھ گئی۔
”کالج جاتی ہے…چھوٹی کہاں ہے…سچی بات تو یہ ہے وہ لڑکا مجھے بھی بہت اچھا لگا تھا…میں تو چاہتی تھی تیری بھی کسی ایسے ہی لڑکے سے شادی ہوتی“ ماہم نے فوراً اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ مریم بی بی پہلے ہی سے ماہم کو دیکھ رہی تھی۔ اُس نے ماہم کے چہرے کی تحریریں پڑھنے کی کوشش کی۔ ماہم نے نظرجھکا لی۔


”اگر کہو تو میں لالہ جی کو انکار کردو“ مریم بی بی نے ایک بار پھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھتے ہوئے ماہم سے پوچھا۔
”امّی جی! آپ کو پتہ توہے میرا جواب …پھر کیوں پوچھتی ہیں؟“
ماہم نے بغیر دیکھے خشک لہجے کے ساتھ جواب دیا۔ استری بند کی اور کمرے سے نکل گئی۔ صحن میں اُس کا مومنہ سے سامنا ہوا۔
”آپی! امّی کے کپڑے“ مومنہ نے کپڑے دکھاتے ہوئے کہا۔


”پریس کر دینا“
ماہم نے دوسری منزل کی طرف چڑھنے والی سیڑھیوں کے پاس پہنچ کر جواب دیا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”آپی کو کیا ہوا …؟ امّی جی…!“ مومنہ اپنی ماں کے سامنے کھڑی تھی۔
”کچھ نہیں تم تیار ہوجاؤ…“
#…#
”تیار ہو گئی ہو“ شمائل نے مستی سے موبائل پر ستارہ سے پوچھا ۔
”ہو رہی ہوں“ ستارہ شیشے کے سامنے بیٹھی ہوئی بولی۔


”میں تو ابھی ابھی پارلر سے آئی ہوں“شمائل نے شوخی مارتے ہوئے بتایا۔
”ہم دُلہن کو لینے جا رہے ہیں…تم خود ہی دُلہن بن رہی ہو اور زیادہ شوخیاں مت مارا کرو میرے بھی دو بھائی مسقط میں ہیں“ستارہ نے روکھا سا جواب دیا۔
”ناراض کیوں ہو“
”رات میری نیند خراب کر دی … اب پوچھ رہی ہو ناراض کیوں ہوں“
”ایک ہی رات لگائی ہے فیس بک پر۔

آ ج ولیمے میں میرے آگے پیچھے گھومے گا“ شمائل نے فخریہ انداز سے بتایا
”کیا…کیا کہا تم نے؟“
”اُسے فرینڈ ریکوسٹ بھیجی تھی اُس نے ایکسپٹ کر لی۔ پھر صبح تک اُس سے میسج پر گپ شپ ہوتی رہی ہے“شمائل نے اپنی محبت میں فتح کی روداد سنائی۔
#…#
”محبت کے مقابلے میں نفرت کرنا آسان ہے … تم جاؤ عشال بیٹی ! خالہ ممتاز سے اچھی طرح سے ملنا … اُن کو اپنا تعارف بھی کروانا۔

“ حکیم صاحب عشال کو سمجھا رہے تھے۔
”وہ تو یہ سُن کر مجھ سے نفرت کریں گی“ عشال معصومیت سے بولی۔
”کیا تم مزمل سے نفرت کرتی ہو؟“ حکیم صاحب کے پوچھنے پر؟ عشال نے بھولے پن کے ساتھ نفی میں گردن ہلائی۔
”میں بھی نہیں کرتا…اِس سب میں ہم لوگوں کا تو کوئی قصور نہیں نہ تو ہمیں ایک دوسرے سے بغض رکھنا چاہیے اور نہ ہی شرمندہ ہونا چاہیے“
حکیم صاحب ولیمے پرجانے کے لیے عشال کو راضی کر رہے تھے۔

حکیم صاحب اور عروسہ خود جو نہیں جا رہے تھے، اس لیے عشال نے بھی جانے سے انکار کر دیا تھا۔
”پر …ابّا…میں آپ کو چھوڑ کر اکیلے کیسے جا سکتی ہوں“ عشال نے اُلجھی ہوئی آواز کے ساتھ جواب دیا۔ حکیم صاحب اور عروسہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ حکیم صاحب نے عروسہ کو بولنے کا اشارہ کیا۔
”دیکھو عشال بیٹی…! ہم تمھیں خود بھیج رہے ہیں۔“ عروسہ نے شائستگی سے سمجھایا۔


”لیکن امّاں…! میں آپ کو چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہوں“ عشال اپنے فیصلے سے ٹس سے مس نہیں ہوئی۔
”جیسے شادی کے بعد ہمیں چھوڑ کر چلی جاؤگی“ عروسہ نے اُداسی سے کہا۔
”امّاں…! آپ دو الگ باتوں کو کیوں جوڑ رہی ہیں۔ یہ بات ہے تو میں آج ہی حارث سے کہے دیتی ہوں کہ میں شادی کے بعد معراج کے ہی رہوں گی۔ مانچسٹر نہیں جاؤں گی۔“ عشال نے خفگی سے کہا۔


”جھگڑا تو مت کرو…“ اِدھر آؤ میرے پاس…“ عروسہ مسکراتے ہوئے بولی۔ عشال اُٹھ کر عروسہ کے پاس گئی عروسہ نے اُس کی پیشانی چومی اور اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حکیم صاحب نے دیکھا تو بولے:
”عشال بیٹی! جہاں بات مان لی جائے وہاں جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔“ عشال نے غور سے حکیم صاحب کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ وہ سنجیدگی سے دوبارہ بولے:
”ضد چھوڑو…اور تیار ہو جاؤ…“




Episode #6

Mann K Mohally Main Episode #6 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Mann K Mohally Main Haalim (Nimra Ahmed) Zeerak Zann Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment