***

Hello Guys !! You Can Comment Here For Suggestion And Whatever You Want To See Here Because We Respect Our All Users . Best Wishes . Good Luck

Sunday, January 1, 2023

Mann K Mohally Main Episode #7 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels

Mann K Mohally Main Episode #7 By Shakeel Ahmed Chouhan




Mann K Mohally Main Episode #7 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels

من کے محلے میں


Episode #7

عشال نے حکیم صاحب کی بات مان لی وہ تیار ہو کر ماہم کے گھر پہنچی۔ مومنہ اور مریم بی بی بھی تیار ہو چکی تھیں۔عشال نے اُن کو مسکراتے ہوئے دیکھا ۔
”آپی! کیسی لگ رہی ہوں“مومنہ نے جھومتے ہوئے عشال سے پوچھا۔ عشال کے مکھڑے پر جلدی سے مسکان نے قدم رکھے وہ مسکراتے ہوئے بولی:
”Awesome“
”تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو“ مریم بی بی نے عشال سے کہا۔


”آنٹی ! ماہم کہاں ہے … ؟“
”اپنے کمرے میں…“
”میں اُسے لے کر آتی ہوں“ عشال نے اپنے لہنگا اُٹھایا۔ وہ ہیل والی سینڈل پہنے ہوئے، کمال مہارت سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ عشال بغیر دستک کے ماہم کے کمرے میں داخل ہو گئی۔
”Oh no! تم ابھی تک ریڈی نہیں ہوئی“ عشال نے ماہم کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا۔
”میری طبیعت ٹھیک نہیں“
”طبیعت کا تو بہانہ ہے…تم اپنی لائف کے ٹرننگ پوائنٹ سے پہلے ہی یوٹرن لے رہی ہو، میری خواہش تھی تم بھی ہمارے ساتھ چلتی“ عشال نے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔

”خواہش کا تعلق آپ کی اپنی مرضی سے ہوتا ہے اِس لیے میں جانا نہیں چاہتی“ ماہم نے جواب دیا۔
”فائن… ماہم چوہدری…! محبت کا تعلق آپ کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا… محبت اوربھوت آپ سے پوچھ کر نہیں چمٹتے … یہ دونوں زبردستی انسان کے اندر گھس جاتے ہیں“ عشال نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
”بھوت بنجر مکانوں میں گھر بناتے ہیں …اور محبت خالی دلوں میں بسیرا کرتی ہے۔

میرے دل پر شمعون کے نام کی رجسٹری ہو چکی ہے !“
”ناجائز قبضے کو رجسٹری کا نام مت دو … دل اور خالی پلاٹ میں فرق ہوتا ہے ماہم چوہدری…!! من کے محلے میں سارے پلاٹ من کی مرضی سے ہی ٹرانسفر ہوتے ہیں۔“ عشال مسلسل ماہم کو دیکھے جا رہی تھی۔ ماہم نے اُسے دیکھا تو اپنی نگاہوں کو جھکا لیا۔ عشال پھر سے مسکراتے ہوئے بولی :
”میں نفرت کے ڈر کی وجہ سے نہیں جا رہی تھی۔

تم محبت کی وجہ سے انکاری ہو۔ تم مانوں یا نامانوں محبت کا بھوت تمھارے اندر گھس چکا ہے۔“
ماہم کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی جسے عشال نے محسوس کر لیا تھا۔ عشال نے ماہم کی سنجیدگی کو ختم کرنے کے لیے بات بدلی۔
”بھوت کو انگلش میں کیا کہتے ہیں…؟“
”Ghost…“ ماہم نے مختصر سے جواب دیا۔
”یہ انگلش بھی عجیب زبان ہے۔ پیار، عشق، محبت کا ایک ہی مطلب بتاتی ہے’Love‘ یہ بھی کوئی بات ہے … تین لفظوں کا مطلب صرف ایک…“
”محبت لفظوں کی قید سے آزاد ہے … سمجھنا چاہو تو نا ممکن … یہ ہمارے اندر ہی ہوتی ہے۔

بھوت کی طرح اندر گھستی نہیں ۔ ہم اِسے باہر تلاش کرتے رہتے ہیں۔ تمھارے جیسے جنس مخالف کے درمیان کسک اور حوص کو ہی محبت سمجھتے ہیں۔ عشال تم مجھے ایک بات کا جواب دو! حکیم چچا اور عروسہ چچی سے زیادہ تمھیں کون محبت کر سکتا ہے…؟ حارث بھائی بھی تم سے محبت کرتے ہیں اُن کی محبت تمھارے والدین سے زیادہ …ہو ہی نہیں سکتی۔ حیرت ہوتی ہے مجھے اُن لڑکیوں پر جو اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر کسی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں“ ماہم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔


”نائس ویری نائس…محبت پر Speechدو تو فسٹ پرائز تمھیں ہی ملے گا … تم صرف اتنا بتاؤ تم ہمارے ساتھ چل رہی ہو کہ نہیں…!!“عشال نے پوچھا۔
”نہیں…“ ماہم نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”اوکے…بائے…“ عشال زور سے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے غصے سے چلی گئی۔
#…#
 تین سو کے قریب مردوزن معرا ج کے گاؤں سے ماڈل ٹاؤن لاہور جانے کے لیے تیار ہوئے تھے۔

اُن میں سے کافی ساروں نے بلقیس سے اپنے مالکوں کی تعریفیں سن رکھی تھیں۔ مزمل نے بلقیس کو کہا تھا، وہ جتنے لوگ لا سکتے ہیں لے آئیں۔ بلقیس نے اپنی طرف سے بھی بہت سارے مہمانوں کو مدعو کیا تھا سارے مہمان باخیر و عافیت شادی ہال پہنچ گئے۔
ولیمے کی دعوت کے دوران شمائل کی مشتاق آنکھیں مزمل کے دیدار کے لیے بے قرار تھیں۔
وہ ستارہ کے طعنے سُن سُن کر تنگ آگئی تھی۔

کھانا کھانے کے دوران ہی آخر کار اُس نے تنگ آ کر باذلہ سے پوچھ ہی لیا :
”مزمل نظر نہیں آرہا“باذلہ اُس کی بے تکلفی سے پوچھے ہوئے انداز پر مسکرا دی۔ چند لمحے اُس نے شمائل کو غور سے دیکھا پھر بولی :
”تم مزمل بھائی جان کا پوچھ رہی ہو…؟“ شمائل نے اپنی پلکوں کو ہاں میں جنبش دی۔
”مزمل بھائی! اسلام آباد گئے ہیں“باذلہ نے جواب دیا اور اپنی ہنسی چھپاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔


”تم تو کہتی تھی وہ تمھارے آگے پیچھے گھومے گا“ستارہ نے فرنی کھاتے ہوئے ہی کہہ دیا۔ شمائل نے کھا جانے والی نظروں سے ستارہ کو گھوری ڈالی جو میٹھا کھاتے ہوئے بھی کڑوی باتیں کر رہی تھی۔
عشال خود جا کر ممتاز بیگم سے ملی اور اپنا تعارف کروایا۔
”السلام علیکم! میر انام عشال ہے“ عشال ممتاز بیگم کے پاس دوسرے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”وعلیکم السلام! میں نے پہچانا نہیں بیٹی تم کون ہو…؟“ممتاز بیگم نے متجسس ہو کر پوچھا۔


”نیلم اور نعمان کی بیٹی عشال“عشال نے نورانی مسکراہٹ کے ساتھ آگاہ کیا۔
ممتاز بیگم نے عشال کے وجیہہ رُخِ روشن کو فصاحت سے دیکھا اور کافی دیر دیکھتی رہیں۔
”ماشاء اللہ…ماشاء اللہ… اِدھر میرے پاس آؤ…“ عشال پاس آئی تو ممتاز بیگم نے اُس کی پیشانی چوم لی۔ عشال کا سارا خوف ہوا ہوگیا۔اُسے ممتاز بیگم سے محبت کی سوندھی سوندھی خوشبو آئی ۔

وہ سوچ رہی تھی محبت کا ایک ہی بوسہ لا تعلقی کی گہری کھائی پر پُل بنا دیتا ہے۔
”میں تو سمجھتی تھی آپ مجھ پر خفا ہوں گی“عشال نے میٹھی آواز سے کہا۔
”تم نے خود ہی سمجھ لیا…“ممتاز بیگم نے گردو نواح کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ سب لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ وہ چاہتی تھیں اُن کی اور عشال کی باتیں کوئی نا سُنے۔
”تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا…؟ ممتاز بیگم نے اپنے سامنے پڑے کھانے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔


”آپ نے بھی تو نہیں کھایا“ عشال نے بھی سامنے پڑے کھانے کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”میری عمر میں دوائیاں زیادہ کھانی پڑتی ہیں…اور کھانا کم…تم کھاؤ شابّاش بعد میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر با تیں کرتے ہیں“ممتاز بیگم نے عشال سے ایسے کہا جیسے ہم عمر بچپن کی سہیلی ہو۔
ممتاز بیگم اور عشال کی ایک دم قربت کو باذلہ اور مومنہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔

صرف اُن دونوں کی توجہ اُس طرف تھی۔ باذلہ اپنی ماں کی غیر موجودگی میں بیگم صاحبہ کا خیال رکھ رہی تھی اور مومنہ کو عشال کی سنگت ہی میسر تھی۔ مومنہ کی معراج کے گاؤں کی دوسری لڑکیوں اور اپنی تایا زاد شمائل سے کوئی خاص علیک سلیک نہیں تھی۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لڑکیوں کا فوٹو سیشن ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ ادھیڑ عمر عورتیں خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔

مرد حضرات ماڈل ٹاؤن پارک کی سیر کو نکل گئے۔ سیر کا تو بہانہ تھا۔ اصل میں معرا ج کے والے سوا سوا سیر کھائے ہوئے شِیر خورما کو ہضم کرنا چاہتے تھے۔
بڑی بوڑھی عورتوں نے بینش کے مکھڑے پر بکھری ہوئی مسرت سے خود ہی اندازہ لگا لیا تھاکہ لڑکی بہت خوش ہے۔دُلہن کی چند قریبی سہیلیاں جن میں شمائل اور ستارہ بھی شامل تھیں۔ اُس کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔


دُلہا باسط گاؤں کے نوجوانوں کے ساتھ اشاروں ہی اشاروں میں بات چیت کر رہا تھا۔
کچھ ادھیڑ عمر مرد باسط کو دور سے ہی دیکھ کر خوش ہو رہے تھے آخر وہ اُن ہی کے گاؤں کا سپوت تھا۔
ایک طرف چند خوش خوراک حضرات کھانے کی تعریف میں قصیدے پڑ ھ رہے تھے۔
ممتاز بیگم نے ویٹر سے کہہ کے شادی ہال کے مینجر کو بلا کرالگ سے بیٹھنے کا بندوبست کروالیا تھا۔


شادی ہال کا مینیجر ممتاز بیگم کی حیثیت سے اچھی طرح واقف تھا۔ اِس لیے اُس نے اپنا کمرہ انہیں بیٹھنے کے لیے پیش کر دیا تھا۔
تمھارا باپ نعمان فون پر تم سے بات کرتا ہے؟ممتاز بیگم نے سنجیدگی سے عشال سے پوچھا ۔
”جی نہیں…“ عشال نے افسردگی سے بتایا۔
”اور ماں نیلم…؟“
”وہ کرنا چاہتی ہیں…مگر!“ عشال نے رُ ک رُک کر کہا ۔
”کیا عاقل اور عروسہ نے منع کیا ہے…؟“ ممتاز بیگم نے تشویش سے پوچھا۔


”نہیں…نہیں۔ابّا امّاں نے تو کبھی منع نہیں کیا۔ میں خود ہی بات نہیں کرتی“
”اُن دونوں کی کبھی یاد آئی…؟“ ممتاز بیگم نے بغیر توقف کے پوچھا۔
”سچ کہوں…یاد تو نہیں آتی…ہاں جب یاد کرنے کی کوشش کرتی ہوں تو دُکھ ضرور ہوتا ہے۔۔“ عشال نے مریل آواز کے ساتھ اپنے دل کا احوال بتایا۔ عشال نے آنسو سے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ممتاز بیگم سے پوچھا:
”میں آپ کو دادی کہوں یا نانی…؟“
”سہیلی … “ممتاز بیگم نے عشال کی چمکتی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ ہی اُسے اپنے گلے بھی لگا لیا۔

گلے لگنے کی دیر تھی۔عشال کے آنسو چھلک پڑے ۔ عشال کی آنکھوں میں سالوں سے قید آنسوؤں کو آخر رہائی مل ہی گئی۔ ممتاز بیگم نے عشال کو خود سے الگ کیا اور بات بدلی :
”سنا ہے تمھاری منگنی ہوگئی ہے“
”ہاں جی…“ عشال نے ٹشو کی مدد سے آنکھوں کے نیچے بکھرا کاجل صاف کیا۔
”تمھیں منگنی کروانے کی اتنی جلدی کیا تھی؟“ ممتاز بیگم نے ایسے کہا جیسے وہ عشال کی بچپن کی سہیلی ہو۔


”کیا مطلب…میں سمجھی نہیں“ عشال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”میرے پوتے مزمل بیگ کو دیکھا ہے۔“
”جی ہاں۔ بہت حسین ہیں مزمل صاحب“
”تمھارے منگیتر سے بھی زیادہ“ممتاز بیگم نے پرکھتی نگاہ ڈالی۔
”دادی کی طرح دیکھو تو ہاں…اگر عشال کی نظر سے دیکھو تو نہیں…عشال کی نگاہوں کو حارث کے علاوہ کوئی جچتا ہی نہیں“
”خوشی ہوئی یہ جان کر تم اپنے ماں باپ جیسی نہیں ہو“ ممتاز بیگم نے عشال کے گال پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔


”مزمل بھی اپنے ماں باپ جیسا نہیں ہے“
”ٹھیک کہہ رہی ہو۔ بلقیس نے ٹھیک کہا تھا، تمھارے بارے میں کہ تم نے خود کو سنبھال لیا ہے۔ لیکن مزمل ابھی تک بکھرا ہوا ہے۔ کاش اُسے بھی کوئی تمھاری جیسی مل جائے۔“
”سمجھو مل گئی…سہیلی…!“ اِس بار عشال نے ممتاز بیگم سے ایسے بات کی جیسے وہ اُن کی سہیلی ہو۔
”کون ہے…؟ کہاں ہے…؟ کیسی ہے…؟“ ممتاز بیگم کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔

اُن میں بجھے دیپ جل اُٹھے تھے۔
”ماسٹر محمود کی بیٹی ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی رہتی ہے۔ بہت ہی خوبصورت ہے۔ کالے سیاہ گھنگھریالے بال موٹی موٹی بلی آنکھیں۔ دودھ کی طرح سفید رنگ۔ میٹھی اور دھیمی آواز میں بات کرتی ہے“
عشال کے منہ سے تعریف سن کر ممتاز بیگم خاموش ہو گئیں اور کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔ عشال نے دیکھا تو پوچھا :
”کیا سوچ رہی ہیں…آپ“
”مزمل نہیں مانتا شادی کے لیے…کیا کروں…؟“
”بس…اتنی سی بات“
”اتنی سی بات نہیں ہے…عشال…“ممتاز بیگم نے پریشانی سے کہا۔

عشال مسکرائی اور بارات والے دن کا آنکھوں دیکھا حال ممتاز بیگم کو سُنا دیا۔ ممتاز بیگم کا چہرہ ہشاش بشاش ہوگیا۔ اُس کے بعد عشال نے ماہم کی بچپن کی منگنی کی روداد بھی سنائی تو ممتاز بیگم کے چہرے پر پھر سے اُداسی آن بیٹھی۔
”سہیلی! پریشان نہ ہوں…ماہم اپنے منگیتر کو بالکل پسند نہیں کرتی۔ وہ تو اپنے مرحوم باپ کی زبان کا پاس رکھے ہوئے ہے۔

وہ کہتی ہے میں شادی سے کبھی انکار نہیں کروں گی اور نا ہی آنٹی مریم کو کرنے دوں گی“عشال نے اپنی طرف سے تشفی دینے کی پوری کوشش کی لیکن ممتاز بیگم اُداس ہی تھیں۔
”عشال بیٹی…! زمانہ بُرا نہیں ہوتا…لوگ اچھے بُرے ہوتے ہیں…میں غلط تھی۔میں پچیس سال سے زمانے کو ہی بُرا کہہ رہی تھی۔ پچیس سال بعد بھی زمانہ تو ٹھیک ہی ہے۔ اب ماہم کو ہی دیکھ لو اپنے مرحوم باپ کی زبان کا کتنا پاس ہے اُسے۔

تم اُس کو یہ رشتہ ختم کرنے کے لیے کبھی مجبور مت کرنا۔ ہاں اُس کے حق میں جو بہتر ہو اُس کی دعا ضرور کرنا۔میں مزمل کے لیے دُعا کروں گی“
کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر ممتاز بیگم کو ایک اور فکر لاحق ہوئی :
”عشال بیٹی! تم لوگوں کے متعلق گاؤں میں کون کون جانتا ہے“
”ماسٹر صاحب کے بعد صرف آنٹی مریم جانتی ہیں“
”ماہم…؟“
”وہ نہیں جانتی…آپ بے فکر ہو جائیں…“
جب تک معراج کے گاؤں والے واپس نہیں گئے ممتاز بیگم اور عشال اکیلے میں ہی باتیں کرتی رہیں۔

عشال نے ممتاز بیگم اور مزمل کا موبائل نمبر لے لیا ۔ آنے سے پہلے ممتاز بیگم نے اپنی کلائی سے ایک سونے کاکنگن اُتار کر عشال کو پہنا دیا تھا۔ عشال نے لینے سے انکار کیا تو ممتاز بیگم بولیں :
”عاقل اور عروسہ سے کہنا میں اُن کی کچھ لگتی ہوں اور تم میری کچھ لگتی ہو“




Episode #7

Mann K Mohally Main Episode #7 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*

من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Mann K Mohally Main Haalim (Nimra Ahmed) Zeerak Zann Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment