***

Hello Guys !! You Can Comment Here For Suggestion And Whatever You Want To See Here Because We Respect Our All Users . Best Wishes . Good Luck

Monday, December 26, 2022

Zeerak Zann Episode #8 By Shakeel Ahmed Chouhan | Romantic novels in urdu | best urdu novels | Sad _ Emotional Novel

Zeerak Zann Episode #8 By Shakeel Ahmed Chouhan



Zeerak Zann Episode #8 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels | Sad _ Emotional Novel

 زِیرک زَن-قسط نمبر 8


Episode #8

ضرار کے بیل دینے سے پہلے ہی عترت نے دروازہ کھول دیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی کالی چادر میں لپٹی ہوئی تھی چہرے پر نقاب اور ہاتھ میں ایک فائل نما فولڈر تھا۔
” چلیں …؟“ عترت نے ضرار کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
”کہاں…؟“

” یہ پکڑیں۔“ ضرار کو وہ فائل پکڑانے کے بعد عترت بیرونی دروازے کو باہر سے Lock لگانے لگی۔
” جانا کہاں ہے۔

“ ضرار نے پوچھا۔
”آپ آئیں میرے ساتھ۔“ عترت آگے آگے چل پڑی۔ ضرار نے اُس کے ساتھ قدم ملائے۔ جب وہ دونوں سڑک پر پہنچے تو ساجد کار کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ سڑک پر آتے جاتے لوگ رُک رک کر دیکھ رہے تھے۔
ضرار نے حیرت سے ساجد کی طرف دیکھا۔ عترت بڑی شان کے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ ضرار بھی اُس کے ساتھ بیٹھ گیا۔

ساجد ڈرائیو کرنے لگا۔

جب کار رِنگ روڈ پر چڑھی تو عترت نے اپنا ہاتھ چپکے سے ضرار کے ہاتھ میں دے دیا۔ ضرار کے تن بدن میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
” ساجد گھر بول کر میرا اور صاحب کا کھانا بیڈ روم میں ہی لگوا دو۔“
” جی آپی“ ساجد نے اپنے فون سے اپنی ماں کا نمبر ملایا :
” اماں ! آپی اور سر کا کھانا اُن کے بیڈ روم میں ہی لگوا دیں۔ میں اُن کو لے کر پندرہ بیس منٹ تک پہنچ رہا ہوں۔

گھر پہنچ کر وہ اپنے بیڈ روم کے سامنے پہنچے تو شاکرہ ایک ملازمہ کے ساتھ بیڈ روم سے نکل رہی تھی۔
” السلام علیکم عترت نے خلوص سے کہا۔
” و علیکم السلام“ چھوٹی بیگم“ یہ بول کر شاکرہ اُس ملازمہ کو لے کر وہاں سے جلدی سے چلی گئی۔
”ساجد کے علاوہ باقی ملازم آپ سے بہت ڈرتے ہیں۔“ عترت نے ضرار سے کہا۔ ضرار نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے کھولا پھر تعظیمی نظروں سے عترت کو اندر جانے کی دعوت دی۔

ضرار آج عترت سے کچھ محتاط محتاط سا تھا۔ عترت کے پیچھے پیچھے ہی ضرار بھی بیڈ روم میں داخل ہو گیا۔
عترت نے اپنی چادر اُتاری پھر چہرے سے نقاب ہٹایا۔ اُفق پر چمکتی شفق جیسا ایک مکھڑا ضرار کے سامنے تھا۔ آج اِس چہرے پر پہلی بار ضرار نے ہلکا سا میک اپ بھی دیکھا۔ عترت نے سوٹ بھی فینسی پہن رکھا تھا۔ ضرار ندیدی نظروں سے عترت کو ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔

عترت نے نظروں سے نظریں ملائیں۔ ضرار کی نظروں میں حدت تھی جبکہ عترت کی نظروں میں شانت محبت۔ عترت نے شائستگی سے پوچھا :
” کھانا کیوں نہیں کھایا کل سے…؟“
” آپ کھا پائی تھیں کیا …؟“ ضرار نے پوچھا۔
”میری بھوک تب مرتی ہے، جب میں کسی کے ساتھ زیادتی کر بیٹھوں۔“ عترت نے دھیمے لہجے میں بتایا۔ ضرار نے بھی اُسی طرح کے لہجے کے ساتھ اعتراف کیا :
” شاید اسی لیے میری بھوک بھی مر گئی تھی۔

“ عترت نے کھانے والی ٹرولی اور میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
” کھانا کھاتے ہیں۔“ وہ دونوں کھانے کے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ عترت نے ضرار سے کہا :
” ڈالیں۔“
”اُس دن اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا۔“ ضرار نے شکوے کے ساتھ یاد کرایا۔ عترت نے کھانا پلیٹ میں نکالا اور ضرار کو کھلانے لگی۔ کھانے سے فارغ ہوتے ہی ضرار نے برتن لے جانے کے لیے شاکرہ کو کال کر دی۔

عترت واش روم چلی گئی تو ضرار نے ٹیرس پر جا کر سگریٹ سلگا لی۔
جب عترت وضو کر کے لوٹی تب تک برتن سمیٹ لیے گئے تھے۔ ملازمہ کے پیچھے شاکرہ بھی بیڈ روم سے نکل رہی تھی۔ عترت نے پیچھے سے آواز دی :
” بی بی ! جائے نماز چاہیے۔“
”جی میں نے آپ کے کپڑے اور جائے نماز پہلے ہی اُس کیبن میں رکھوا دیے تھے۔“ شاکرہ نے ایک کیبن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔

عترت نے کہا :
”شکریہ ! آپ جا سکتی ہیں۔“
عترت نماز میں مصروف ہو گئی۔ ضرار ٹیرس کا دروازہ بند کرنے کے بعد بیڈ روم میں آیا اور تین سیٹوں والے ایک صوفے کے کونے پر بیٹھ کر نماز پڑھتی ہوئی عترت کو غور سے دیکھنے لگا۔ عترت نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اُسی کیبن میں جائے نماز رکھا اور آ کر صوفے کے دوسرے کونے پر بیٹھتے ہوئے ضرار سے پوچھا :
” سگریٹ بھی پیتے ہیں۔

”کبھی کبھی… جب بہت زیادہ کنفیوژ ہوتا ہوں۔“
” کنفیوژ کیوں ہیں…؟“ عترت نے دلچسپی سے پوچھا۔
” بہت کچھ آپ کو بتانا چاہتاہوں … پر آپ کی ناراضگی سے ڈر لگتا ہے۔“
”میں آپ کو سمجھنا اس لیے چاہتی ہوں تاکہ آپ کو خوش رکھ پاؤں۔مجھے آپ کے راز جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“ عترت کے بتانے پر ضرار حریص نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔

عترت نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، ضرار نے بغیر تاخیر کے اُسے پکڑ لیا۔ عترت نے ضرار کے ہاتھ کو اپنی طرف بڑے آرام سے کھینچتے ہوئے ضرار کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ ضرار کمر کے بل صوفے پر لیٹ گیا تھا۔ عترت اپنی نرم انگلیوں کو ضرار کے سلکی بالوں میں بڑی محبت سے پھیرنے لگی۔
” اُس رات کی طرح آج بھی بڑا سکون مل رہا ہے۔“ ضرار نے گرم سانسوں کے ساتھ بتایا۔

عترت خاموش رہی۔
”میں نے بڑی لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ ایسا سکون کبھی کسی کے ساتھ نہیں ملا۔“
”میں آپ کی منکوحہ ہوں۔“ عترت نے بتایا۔
” منکوحہ مطلب۔“
”ہمارا نکاح ہوا ہے… ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ہیں۔ حلال میں سکون ہی سکون ہے… اور حرام میں پریشانی کے علاوہ کچھ نہیں !“ عترت نے کسی گہری سوچ کے ساتھ بتایا۔ عترت کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ضرار اُٹھ کر بیٹھ گیا۔

اُس نے عترت سے بڑے خلوص کے ساتھ پوچھا :
” ایک دم سے آپ پریشان کیوں ہو گئی ہیں … ؟“ عترت گردن کو نفی میں ہلاتے ہوئے خود ہی ضرار کے سینے سے لگ گئی۔
###
رات کے پچھلے پہر جب ضرار کے وجود سے حدت کم ہوئی تو وہ عترت کو بتانے لگا :
” جب میں نے آپ کو پہلی بار میاں جی کے حجرے میں دیکھا اُسی وقت میں نے فیصلہ کر لیا تھا کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے اسے ضرور حاصل کرنا ہے۔

“ حاصل کے لفظ پر عترت نے تھوڑی خفگی سے ضرار کی طرف دیکھا۔ ضرار کے رو برو اسی کے بازو پر سر رکھے ہوئے عترت بیڈ پر کمبل کے اندر لیٹی ہوئی تھی۔
” اندر کی کمینگی بتا رہا ہوں۔“ ضرار نے لفظ حاصل کی وضاحت پیش کی۔
” جب میں آپ کو ڈراپ کرنے گیا۔ میں نے آپ کو پھول پیش کیے آپ نے انکار کر دیا۔ اُس وقت مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ شادی کے بغیر میرے ہاتھ کبھی نہیں لگ سکتی۔

واپسی پر میں کار روک کے کافی دیر سوچتا رہا پھر میں نے فیصلہ کیا یہ ایڈونچر کر کے دیکھتے ہیں۔“
” ایڈونچر کیسے … ؟“ عترت نے بڑے مزے سے پوچھا۔
”میں نے سوچا ڈیڑھ دو مہینے مزے کرنے کے بعد آپ کو مرتے ہوئے قریب سے دیکھوں گا۔“ عترت زیر لب مسکرائی جب کہ ضرار یکایک سنجیدہ ہو گیا۔ وہ بڑے جذبے سے کہنے لگا :
”اب میں آپ کو مرنے نہیں دوں گا۔

“ ضرار کی سنجیدگی دیکھ کر عترت یقین کامل سے کہنے لگی :
” آپ کو کس نے کہا کہ میں آپ سے پہلے مر جاؤں گی۔“
”مطلب …؟“
”مطلب یہ ضرار صاحب ! جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ اوپر والے سے ایک ہی دعا مانگی :
”یا اللہ ! شادی کسی سے بھی کروا دینا اُس کے مرنے کے دس سال بعد تک مجھے زندہ ضرور رکھنا۔“
” وہ کیوں… ؟“ ضرار نے اشتیاق سے پوچھا۔
”بچپن سے سن سن کے میرے کان پک گئے ہیں۔

بے وفا، رنڈی، بدمعاش، گھر سے بھاگی ہوئی کی بیٹی ہے یہ … میں نے اللہ سے ہمیشہ حیا، وفا، عزت اور لمبی عمر مانگی ہے۔“ عترت بات کرتے کرتے چپ ہو گئی ہے پھر یک لخت بول اُٹھی :
” وہ دعا کے ساتھ ساتھ دوا کا حکم بھی دیتا ہے اور آج کی دوائی میں نے کھائی ہی نہیں۔ آپ کو فولڈر دیا تھا وہ آپ کار میں ہی میں چھوڑ آئے۔“
”میں ابھی منگواتا ہوں۔

“ ضرار نے کمبل سے بازو نکالتے ہوئے انٹر کام کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ عترت بول اُٹھی :
”رات کے تین بجے کیوں کسی کی نیند خراب کر رہے ہیں، میں خود لے آتی ہوں۔“ عترت اُٹھنے لگی تو ضرار نے اُس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا :
” آپ نہیں جائیں گی۔ میں خود جاتا ہوں۔“ ضرار اُٹھتے اُٹھتے رک کر پوچھنے لگا :
” گارڈ جاگ رہا ہو گا۔ اُس سے منگوا لوں۔

“ عترت نے گردن ہلا کر اجازت دے دی۔ ضرار نے گارڈ کو انٹر کام پر حکم دے دیا۔ تھوڑی دیر بعد بیڈ روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ضرار اپنا گاؤن پہن کر فولڈر لینے چلا گیا۔ ضرار نے عترت کو فولڈر پیش کیا۔ عترت اُس میں سے اپنی دوائی نکالنے لگی اسی اثناء میں ضرار نے اُسے پانی بھی پیش کرتے ہوئے کہا :
”پانی…“ عترت نے مشکور نظروں سے ضرار کو دیکھا دوائی کھانے کے بعد وہ بولی :
” صبح مجھے مسلم ٹاؤن ڈاکٹر زیبا عزیز کے کلینک بھی جانا ہے۔

”میں خود لے کر جاؤں گا۔“ ضرار نے کہا۔
###
تفصیلی چیک اَپ کے بعد جب عترت، ڈاکٹر زیبا عزیز کے آفس سے نکلی تو باہر بیٹھا ہوا ضرار فٹ سے کھڑا ہو گیا۔
” کیا کہا ڈاکٹر نے …؟“ ضرار نے فکر مندی سے پوچھا۔
”روٹین کا چیک اَپ تھا۔“ عترت نے اطمینان سے بتایا۔
” پھر بھی کچھ کہا تو ہو گا؟“
”ڈاکٹر مجھے کچھ نہیں کہتیں۔

“ عترت نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ ضرار کو تشویش ہونے لگی اُس نے عترت سے پوچھا :
”میں ڈاکٹر سے مل سکتا ہوں کیا …؟“
”وہ بھی آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ چلیں۔“ عترت نے چلتے ہوئے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ ضرار نے بڑی سنجیدگی میں بتایا :
” میں اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں۔“
” کوئی فائدہ نہیں … بوڑھی ہیں وہ … بیٹا کہیں گی آپ کو … ! “ عترت نے اُتنی ہی سنجیدگی سے بتایا۔

ضرار مسکراتے ہوئے آفس کے اندر داخل ہو گیا۔ عترت اُس کے بعد لیب میں داخل ہو گئی۔
”جی … “ ڈاکٹر زیبا عزیز نے فائل سے نظریں اُٹھا کر چشمے کے اوپر سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ضرار نے اپنا تعارف کروایا۔
”میں جی عترت کا ہسبینڈ ہوں۔“ ڈاکٹر نے اُلٹے ہاتھ سے چشمے کو آنکھوں کے اوپر لے جاتے ہوئے سر تا پیر غور سے ضرار کو دیکھا پھر بڑے خلوص سے کہا :
” آؤ بیٹا بیٹھو ! “ ضرار بیٹھ گیا۔


”عترت نے مجھے نکاح پر انوائیٹ کیا تھا۔ اُس دن میں اور ڈاکٹر صاحب ایک فنکشن پر اسلام آباد گئے ہوئے تھے۔ میں خود تمھیں دیکھنا چاہ رہی تھی۔“ ڈاکٹر نے آخری لائن مسکراتے ہوئے کہی تھی۔
” میں ڈاکٹر صاحبہ عترت کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔“ ضرار کی جھجھک میں بھی فکر مندی نمایاں تھی۔ ڈاکٹر ضرار کی اس فکر مندی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولی :
” پوچھو … ؟“
”پیسوں کی پرابلم نہیں… بس کسی طرح عترت کو بچا لیں۔

“ ضرار نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
”ان شاء اللہ بچ جائے گی وہ… ڈونٹ وری“
”میں اُسے علاج کے لیے کسی بھی ملک بھجوا سکتا ہوں۔“ ضرار نے بڑے اعتماد سے بتایا۔
”سات کروڑ والی بات بتائی ہو گی اُس نے۔“ ضرار نے فٹ سے گردن ہلا دی۔
” تقریباً سال پہلے جب عترت کا Cancer Diagnose ہوا تب کسی ڈاکٹر نے اسے بول دیا تھا کہ آپ کا علاج صرف باہر سے ہو سکتا ہے اور علاج پر سات کروڑ خرچ ہوں گے۔

ان دنوں میں جناح ہاسپٹل میں کینسر کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھی۔ یہ میرے پاس آئی بہت پریشان تھی۔ میں نے اس کا چیک اَپ کرنے کے بعد شوکت خانم اپنے ہسبنڈ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ عترت زکوٰة اور صدقے کے پیسے سے علاج نہیں کروانا چاہتی تھی۔ میں نے کہا تم قرض سمجھ کر علاج کرواتی رہو جب پیسے آئیں گے تو قرض واپس کر دینا۔“
”قرض واپس کر دیا ہے اس نے۔

“ ضرار نے جلدی سے بتایا۔
ڈاکٹر مسکرا دی۔ ضرار نے اگلا سوال پوچھ لیا :
” کتنے فیصد چانس ہیں عترت کے بچنے کے۔“
” ففٹی ففٹی… “ ڈاکٹر کی بات سن کر ضرار مرجھا سا گیا۔
”عترت بہت Strong Will Powerکی مالک ہے اس کے اندر جینے کی آرزو ہے۔ جب وہ میرے پاس آئی تھی تو چانس نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ اُس کی دعاؤں کا اثر ہے یا پھر ہماری دواؤں کا اوپر والا ہی جانتا ہے۔

“ عترت آفس میں داخل ہوئی ڈاکٹر کی نظر پڑتے ہی اُس نے پوچھا :
” ہو گیا۔“
”جی“ عترت نے جواب دیا۔
”اوپر چلو… چائے پی کر جانا…“ ڈاکٹر نے کہا۔
” آپ کو پتہ تو ہے میں چائے نہیں پیتی۔“
” اسے تو پینے دو۔“ ڈاکٹر زیبا مسکراتے ہوئے بولی۔
” ہے موڈ“ عترت نے ضرار سے پوچھا۔
”نہیں پھر کبھی۔“ ضرار نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر نے ضرار کی طرف متوجہ ہو کر کہا :
” بیٹا ! اس کا خیال رکھنا۔ بڑی پیاری بچی ہے یہ۔“
###
”اس عام سے کلینک سے خاک علاج ہو گا۔“ کار میں بیٹھتے ہی ضرار نے فائل پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
” کلینک عام ہے ! ڈاکٹر دونوں ہی خاص ہیں۔“
” دونوں مطلب …؟“ ضرار نے عجلت میں پوچھا۔
” ڈاکٹر زیبا اور ڈاکٹر عزیز… زیبا میڈم ریٹائرڈ ہو چکی ہیں یہ کلینک ان کا ہے۔

ڈاکٹر عزیز شوکت خانم میں جاب کرتے ہیں وہ اپنا پرائیویٹ کلینک نہیں بنا سکتے۔“
”کیوں…؟“ ضرار کے ذہن میں سوال اُٹھا۔
” شوکت خانم کی پالیسی ہے کہ وہاں جاب کرنے والا ڈاکٹر پرائیویٹ کلینک نہیں چلا سکتا۔ اب چلیں باقی باتیں راستے میں پوچھ لیجیے گا۔“ عترت نے کہا۔ ضرار نے کار چلا دی ساتھ ہی عترت بول اُٹھی :
”اب ہم نے شملہ پہاڑی جانا ہے۔


” شملہ پہاڑی کیوں … ؟“ ضرار نے پوچھا۔ عترت تصور میں وہ مقدس مقامات لاتے ہوئے کہنے لگی :
” بتایا تو تھا… نیا شناختی کارڈ بنوانا ہے۔ پھر وہاں سے راوی کے پل کے پاس پاسپورٹ آفس جانا ہے۔“
”میں آپ کا باہر سے علاج کرواؤں گا۔ اس کلینک سے نہیں۔“ عترت کی بات کاٹتے ہوئے ضرار نے فکر مندی کے ساتھ کہا۔ عترت کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نے انگڑائی لی وہ ضرار کے ہاتھ پر اپنا نرم ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے نرم لہجے میں سمجھانے لگی :
” ضرار صاحب ! میرا علاج شوکت خانم سے ہو رہا ہے۔

اس کلینک سے نہیں۔“
”وہاں تو آپ چیک اَپ کے لیے ایک بار بھی نہیں گئیں۔“ ضرار نے کہا۔ عترت نے محبت بھری نظروں کے ساتھ ضرار کی طرف دیکھا پھر کہنے لگی :
”وہاں مہینے بعد چیک اَپ ہوتا ہے اور ہمیں ملے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔“
”مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں آپ کو صدیوں سے جانتا ہوں۔“ ضرار کی سنجیدگی دیکھ کر عترت مسکراتے ہوئے بولی :
” دھیان سے ڈرائیو کریں۔

میں نے کہا بھی تھا ساجد کو ساتھ لے چلتے ہیں۔“
”ساجد ساتھ ہوتا تو آپ نے میری طرف دیکھنا بھی نہیں تھا۔“
” یہی بات میں اُس دِن آپ کو سمجھانے والی تھی۔“
” کس دن …؟“ ضرار نے پوچھا۔ عترت نے صرف آنکھ بھر کر دیکھا ہی تھا کہ ضرار شرمندہ ہو گیا۔ عترت نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا پھر بولی :
” میں نے میاں جی اور اماں کو کبھی اپنے سامنے ایک چارپائی پر اکٹھے بیٹھے نہیں دیکھا۔

کبھی اُن کی کھسر پھسر نہیں سُنی۔ کبھی اُنھیں نظروں سے اشارے کرتے نہیں پایا۔ اس کے باوجود اُن میں محبت انتہا کی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو آپ کر کے بلاتے۔ میاں جی ایک پاؤ چھوٹا گوشت لاتے وہ ختم ہونے میں نہ آتا۔ میاں جی کی کوشش ہوتی کہ اماں بوٹی کھا لیں اور اماں جی کی کوشش ہوتی کہ میاں جی کھا لیں اور کھا میں جاتی تھی۔“ عترت کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔

اُس کے خاموش ہوتے ہی ضرار نے کہا :
” اور بتاؤ…“
” اُن کو دیکھ دیکھ کر میرے اندر بھی ایسی محبت کی آرزو پیدا ہونے لگی۔ میں نے ایسی محبت کرنے والا جوڑا اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ “
”میں نے دیکھا ہے۔“ ضرار نے تڑپ کر کہا۔ عترت اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔
” ماما،، پاپا کو ! وہ ہر وقت ایک دوسرے کے ساتھ چپکے رہتے۔ انھیں ایک دوسرے کے علاوہ کبھی کوئی تیسرا نظر ہی نہیں آیا۔“
”اِدھر اِدھر…نادرا کا آفس اِدھر ہے۔ یہ والا۔“ ضرار رستے سے بھٹک جاتا اگر عترت اُسے نہ بتاتی۔ کار پارک کرنے کے بعد وہ نادرا آفس کے اندر چلے گئے۔

#####


Episode #8


*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*




زیرک زن ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Zeerak Zann Mann K Mohally Main Dard_Judai_

No comments:

Post a Comment