***

Hello Guys !! You Can Comment Here For Suggestion And Whatever You Want To See Here Because We Respect Our All Users . Best Wishes . Good Luck

Saturday, January 14, 2023

Mann K Mohally Main Episode #20 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels

Mann K Mohally Main Episode #20 By Shakeel Ahmed Chouhan


Mann K Mohally Main Episode #20 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels


من کے محلے میں


تقریباً چار ہفتوں بعد ایک دن باذلہ آنکھوں میں اشکوں کی چمک سجائے، جنوری کی چمکتی دھوپ میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے لان کی ہری ہری گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اُسے مومنہ کے آنے کی بھی خبر نہ تھی۔ مومنہ اُس کے پیچھے کھڑی تھی۔ چند لمحوں بعد مومنہ بھی اُس کے سامنے اُسی کے اندازمیں بیٹھ گئی تھی۔ ”او ہیلو…کیا ہوا تمھیں…؟“مومنہ نے دائیں ہاتھ سے باذلہ کے بائیں کندھے کو ہلاتے ہوئے پوچھا۔ باذلہ نے مومنہ کی طرف اَشکوں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ دیکھا ہی تھا کہ اشک فٹ سے چھلک پڑے وہ شاید مومنہ کا ہی انتظار کر رہے تھے۔ ”رو کیوں رہی ہو کچھ بتاؤ تو سہی…؟“ اس بار مومنہ نے قدر ے فکر مندی سے پوچھا۔ باذلہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیا اور کہنے لگی: ”رو نہیں رہی…بس دل بھر آیا تھا پتہ ہی نہیں چلا کب آنسو نکل آئے۔

“باذلہ نے شولڈ ربیگ سے ٹشو پیپر نکال کر اپنے آنسو صاف کیے ۔ مومنہ نے باذلہ کی گھاس پر رکھی ہوئی کتابوں کے اوپر پڑے ہوئے چشمے کو اُٹھایا اور باذلہ کو لگاتے ہوئے بولی: ”لوگ چشمے کے ساتھ جن لگتے ہیں اور تم چشمے کے بغیر چڑیل …“ مومنہ کی بات سن کر باذلہ مسکرا دی۔ اُس کی مسکراہٹ دیکھ کر مومنہ پھر سے بول پڑی : ”چلو کینٹین چلتے ہیں…جو مرضی کھاؤ…بل میں دوں گی۔ “مومنہ نے شاہانہ انداز کے ساتھ کہا تھا۔ وہ دونوں کینٹین کی طرف چل پڑیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور گنگا رام ہاسپٹل کے درمیان سڑک کے نیچے سے جو انڈر پاس دونوں اداروں کو ملاتا ہے۔ وہ چلتے چلتے وہاں پہنچ گئیں اُس جگہ ٹریفک کا شور قدرے کم ہوتا ہے۔ مومنہ نے اُس بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے باذلہ کو اُسی جگہ روک کر پوچھا : ”دل کیوں بھر آیا تھا…تمھارا…؟“ مومنہ کی سوالیہ نظریں باذلہ کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ باذلہ نے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ جواب دیا : ”مزمل بھائی کی وجہ سے اُن کو ایک دم چپ سی لگ گئی ہے۔ بات تو وہ پہلے بھی کم ہی کرتے تھے…اب تو…“ اب تو کے بعد باذلہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کہہ پائی۔ ”ماہم آپی کا بھی یہی حال ہے…“ مومنہ نے ماہم کا دکھڑا سنا دیا۔ مومنہ نے باذلہ کا ہاتھ تھاما اور چلتے ہوئے کہنے لگی : ”کینٹین میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ “ چند منٹ بعد وہ دونوں کینٹین میں تھیں۔ ”تم نے ”محبت بے درد سا درد ہے۔“ ناول پڑھا ہے…؟“باذلہ نے بیٹھنے کے بعد پہلی بات یہی کہی تھی۔ مومنہ نے عجیب نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور ترش آوز کے ساتھ بولی : ”اِس وقت یہ ناول کہاں سے یاد آگیا…تمھیں…میں حقیقت جاننا چاہتی ہوں اور تم ناول کے متعلق پوچھ رہی ہو۔“ ”تم بتاؤ تو سہی…پھر میں بھی بتاتی ہوں…“باذلہ نے سنجیدگی سے زور دے کر کہا تھا۔ مومنہ نے اپنے سامنے ٹیبل پر پڑی ہوئی موٹی موٹی میڈیکل کی کتابّوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہنے لگی : ”مجھ سے تو یہ کورس کی کتابیں نہیں پڑی جاتیں … یہ ناول شاول کہاں سے پڑھوں گی!“ ”مزمل بھائی نے ایک رات میں ہی پونے پانچ سو صفحات کا ناول پڑھ ڈالا۔“ ”باذلہ…! رکو…رکو… تم آج کھسکی ہوئی لگ رہی ہو۔ میں تمھیں یہاں مزمل بھائی اور ماہم آپی کے بارے میں بات کرنے کے لیے لائی ہوں اور تم مجھے ناول کے صفحات گنوا رہی ہو۔ “ مومنہ نے کچھ خفگی سے کہا تھا۔ باذلہ نے پہلی بار اُس کی پریشانی کو نوٹس کیا تھا۔ ”خفا کیوں ہوتی ہو … میری بات سنو…“ باذلہ نے قدرے نرمی سے کہا۔ ”جی باجی… کیا لیں گی آپ…“ چودہ پندرہ سال کے ایک لڑکے نے پوچھا تھا۔ مومنہ نے اُس لڑکے کو گھوری ڈالتے ہوئے جواب دیا: ”بچو ! اُس دن بھی پانی ملا جوس تم نے پلایا تھا۔ دو موسمی کے جوس برف اور نمک کے بغیر پانی کا ایک بھی قطرہ نہ ہو اپنے اُستاد کو بول دینا۔ “ مومنہ نے اپنے اندر کا کافی غصہ ویٹر پر نکال دیا۔ وہ آرڈر لے کر خاموشی سے چلا گیا تھا۔ ”اب تم سناؤ…“مومنہ اُسی تال میں بولی۔ ”مزمل بھائی ”محبت بے درد سا درد ہے۔“ ناول اور نمل آپی کے بہت خلاف تھے۔“ باذلہ نے یہ کہا ہی تھا۔ مومنہ نے بیزاری سے پوچھا: ”اب یہ نمل آپی کون ہے…؟“ ”مجھے بولنے تو دو… سب بتاتی ہوں۔“ باذلہ معصومیت سے کہنے لگی جیسے درخواست کر رہی ہو۔ مومنہ نے پلکوں کو جنبش دے کر بولنے کا اشارہ کیا۔ باذلہ کہنے لگی : ”نمل آپی مشہور ناول نگار ہیں۔“ ”ہاں …ہاں…یاد آیا… اُس رائٹر کا نام تو آئی تھنک نمل حیدر ہے۔“ ”ہاں…وہی۔“ ”تو سیدھی طرح نمل حیدر کہو یہ نمل آپی۔نمل آپی کیا لگا رکھا ہے۔ باذلہ! اب تم میرا بلڈ پریشر ہائی کر رہی ہو۔“ مومنہ نے باذلہ کو انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔

”تم بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھو۔ بس تم مجھے ٹوکنا مت ساری بات سمجھاتی ہوں۔ میں شروع ہی سے نمل آپی کی بہت بڑی فین ہوں۔ اُن کے سارے ناول میرے پاس ہیں۔ میں نے نمل آپی کے سارے ناولز کے مرکزی خیال مزمل بھائی کو سنائے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ اُن کو ناولز وغیرہ بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔ وہ لفط محبت سے بھی شدید نفرت کرتے تھے۔ نمل آپی اپنے ناولز میں بات ہی محبت کی کرتی ہیں، اسی وجہ سے مزمل بھائی کو نمل آپی بھی بُری لگنے لگی۔ میٹرک تک تو ٹھیک تھا فسٹ ایئر میں میری پرسنٹیج بہت بُری آئی تھی۔ تب مزمل بھائی کو لگا میں ناولز پڑھتی ہوں اِس لیے ایسا ہوا ہے ۔ انہوں نے مجھے سختی سے ناولز پڑھنے سے منع کر دیا تھا۔ میں نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا کہ میں جب تک ڈاکٹر نہیں بن جاتی کسی بھی ناول اور ڈائجسٹ کو ہاتھ تک نہیں لگاؤں گی۔ وعدہ تو میں نے کر لیا تھا پر میں اُسے نبھا نہ سکی اور کالج فرینڈز سے ناول اور ڈائجسٹ لیتی پڑھ کر اُنہیں واپس کر دیتی۔ باسط بھائی کی بارات سے ایک دن پہلے باتوں باتوں میں میرے منہ سے نکل گیا کہ میں ناول پڑتی ہوں۔ مزمل بھائی کو غصہ تو آیا پر کہا کچھ نہیں۔“ ”ایک نمبر کی ڈفر ہو تم…بس کرو“مومنہ نے باذلہ کو پھر روک دیا۔ ”باجی …! جوس…“ ویٹر نے جوس اُن کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا۔ مومنہ باذلہ کے حصے کا باقی غصہ اُس ویٹر پر نکال دیتی مگر وہ خود ہی بول پڑا : ”باجی…پانی کا ایک قطرہ ثابت کر دیں تو ہزار کا نوٹ انعام دو ں گا۔ “ ویٹر نے شوخی ماری۔ ”ٹھیک ہے بچو…! وہ ابھی پتہ چل جائے گا۔ اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہوٍجاؤ یہاں سے“ مومنہ نے اُس کی شوخی پر غصے سے ہتھوڑی ماری تھی۔ مومنہ نے سٹرا کو منہ لگاتے ہوئے جلدی ہی سے آدھا جوس پی لیا۔ اِس کے برعکس باذلہ سٹرا کو جوس میں ہلائے جا رہی تھی۔ ”باذلہ !!بتاؤں تمھارے ساتھ پرابلم کیا ہے۔ سب تمھاری تعریفیں کرتے ہیں۔ اس لیے تم نے خود کو عقلمند سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ تمھاری آنکھوں میں آنسو دیکھے تو مجھے لگا تمھیں تو مجھ سے بھی زیادہ غم ہے مزمل بھائی اور ماہم آپی کا پر ایسا نہیں ہے۔ تم تو اپنی رام لیلا ہی سنائے جا رہی ہو“ ”اُس ناول میں لڑکا اور لڑکی دونوں مر جاتے ہیں“ باذلہ نے مومنہ کی بات کاٹتے ہوئے افسردگی سے بتایا۔ اُس ناول میں لڑکا اور لڑکی دونوں مر جاتے ہیں…؟“ مومنہ بڑی مشکل سے باذلہ کا جملہ دہرا پائی، کھلے منہ اور کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ باذلہ کے چہرے پر اُداسی تھی۔ اُداسی کے باوجود باذلہ نے بولنا شروع کیا : ”میں مزمل بھائی کو کافی دینے گئی تھی اُسی وقت مزمل بھائی کے کسی کلائنٹ کی کال آئی وہ ٹیرس پر چلے گئے۔ سائید ٹیبل پر کافی کا مگ رکھتے ہوئے مجھے لگا تکیے کے نیچے کوئی چیز ہے میں نے تکیہ اُٹھایا تو اُس کے نیچے ”محبت بے درد سا درد ہے۔“ ناول تھا۔ پیج نمبر چالیس پر بُک مارک تھا۔ میں نے دیکھ کر اُسی طرح ناول پھر وہاں رکھ دیا۔ آج صبح میں مزمل بھائی کی بیڈ روم والی فریج میں فروٹ چاٹ رکھنے گئی تو وہ واش روم میں تھے۔ میں نے جلدی سے تکیہ اُٹھا کر دیکھا تو بک مارک 472نمبر پیج پر تھا۔ صرف ناول کے 1پیج با قی تھا۔“ ”1پیج کیوں چھوڑا…؟“ مومنہ نے پوچھا ۔ ”1صفحہ پہلے ہی رفعت اور رمیض کی کہانی ختم ہو جاتی ہے“ ”مطلب …؟“ مومنہ نے ایسے کہا جیسے اُسے کوئی ڈر ہو۔ ”مطلب یہ کہ …وہ دونوں مر جاتے ہیں!!“باذلہ نے سنجیدگی سے بتایا۔ ”کیسے…؟“ مومنہ نے غمزدہ آواز میں پوچھا۔ ”اب تم ناول کے متعلق پوچھ رہی ہو… اور میں حقیقت کے متعلق سوچ رہی ہوں کہ آگے کیا ہوگا…؟“ باذلہ بات کرتے کرتے خاموش ہوگئی۔ موسمی کے جوس سے اُس نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا، جبکہ مومنہ آدھا جوس پی چکی تھی۔ وہ دونوں کافی دیر خاموش بیٹھی رہیں۔ ”مومنہ! مجھے ڈر ہے کہیں مزمل بھائی اور ماہم آپی ایسا کچھ نہ کر گزریں…“باذلہ نے درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا تھا۔ ”ایک ہفتہ رہ گیاہے …شادی میں…“اِس بار مومنہ اُسی تال میں بولی تھی ۔

Episode #20 End


Mann K Mohally Main Episode #20 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels


*___""Maan Ki Jaan""___*

*___""DSD""___*


من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )


Next Episode Read All Episode Previous Episode

Click Below For Reading More Novels

Dard_Judai_ Haalim (Nimra Ahmed) Zeerak Zann Mann K Mohally Main

No comments:

Post a Comment