Haalim Episode #1 Part #4 By Nimra Ahmed
حالم ( نمرہ احمد )
سوپ پارلر میں دو پہر اپنی ساری حدت کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی تھی۔ یخنی کی خوشبو اور اشتہا انگیز دھوئیں سارے میں پھیلے تھے۔ کچن میں ایک ساتھ بہت سی چیزیں پک رہیں تھیں۔ اندر جھانکوتو دو میٹرے پہ بر تن لگار ہے تھے۔ ایک ویٹرس ایک پلیٹر پر جھگی کھڑی اس میں رکھے ملغو بے کو سجارہی تھی ۔ ایک بوڑھا آدمی
ایپرن اور ٹوپی پہنے کھڑا سوپ کے دیگچے میں پیچ ہلا رہا تھا۔ صرف وہ فارغ بیٹھی نظر آتی تھی .. خالی کا ؤنٹر پر چوکڑی کے انداز میں بیٹھی اس نے ایرن پہن رکھا تھا اور بال ٹوپی میں مقید تھے ۔ یہ واضح نہ تھا کہ وہ کتنے لمبے تھے مگر چہرہ بینوی اور سرخ سفید سا تھا۔ سیبوں جیسے گال جن پر مسکرانے سے ڈمپل پڑتا تھا ۔ اور بڑی بڑی سبز آنکھیں ۔ وہ ایشیائی نقوش والی پیاری سی لڑکی تھی اور اس وقت آنکھیں گھما کے سب کو دیکھتی مسکراتے ہوئے گنگنائے جارہی تھی۔
دفعتاً دوسری ویٹرس نے سر اٹھا کے اکتاہٹ سے اسے دیکھا۔
کتنا کام پڑا ہے اگر تم تھوڑا سا کر لوگی تو وزن نہیں کم ہو جائے گا تمہارا۔“
تالیہ گانا روک کے ہلکا سا جنسی پھر آنکھیں سیدھی ویٹرس پر جمائے بولی۔ "میرے گانے سے سوپ میں ذائقہ آتا ہے۔ آپ لوگوں نے وہ مووی دیکھی ہے کنگ فو پاندا ؟ نہیں دیکھی جا ؟ میں نے بھی نہیں دیکھی۔ لیکن سنا ہے اس میں ایک موٹا سا پانڈا تھا جو .. تم نے اپنی تنخواہ کا کیا کیا تالیہ؟ بوڑھے شیف نے ایک دم اس کی طرف گھوم کے سختی سے سوال پوچھا تو تالیہ کی زبان رکی، لیکن مسکراہٹ برقرار رہی۔ ” جب معلوم ہے کہ تنخواہ پاکستان بھیجتی ہوں تو پوچھتے کیوں ہو پیارے اور موٹے سے بوڑھے ؟ وہ کہہ کے خودی نفس دی تو باقی سب بھی ہنس پڑے۔ سوائے شیف کے جو خفگی سے اسے گھور رہے تھے ۔
لٹا دیا نا ہر دفعہ کی طرح اپنے خاندان پر سب کچھے؟ اپنے لئے کیوں کچھ نہیں رکھتی ؟“ وہ زچ ہوئے ۔
ارے ارے ... میرے کون سے اتنے خرچے ہوتے ہیں۔ اور پھر اتنے سارے پیسوں کا میں نے کیا کرتا ہے۔ اونہوں۔ کھاؤ نہیں ایک ۔ اس نے بات کرتے کرتے کفگیر اٹھایا اور ویٹر کے ہاتھ پہ مارا جونوکری سے گاجر بے پرواہی سے اٹھار ہا تھا۔ ہاتھ پہ لگی تو اس نے
بدمزگی سے تالیہ کو دیکھا جس نے نفی میں دائیں بائیں گردن ہلائی۔ اونہوں۔ یہ مالک کی امانت ہے۔ ہم اسے نہیں کھا سکتے ۔“ دوبس بس تالیہ تم اپنی سچائی اور ایمانداری کو لے کر ہمیشہ ویٹرس کی ویٹرس ہی رہتا۔ وہ برہمی سے بڑے اٹھاتا با ہر نکل گیا۔ تالیہ پھر سے
ہنس دی اور کندھے اچکا دیے۔ پھر گردن موڑی تو ہیڈ شیف اسی طرح اسے ناراضی سے گھور رہے تھے۔ تالیہ نے مسکراہٹ دبالی۔ تمہارے خاندان نے کیا تمہیں پیسہ کمانے والی مشین سمجھ رکھا ہے ؟ تمہارا باپ اور بھائی خود کیوں کام نہیں کرتے ؟ چلو ماں باپ تو ٹھیک ہے بھائی بھابھی اور ان کے بچوں کا خرچہ بھی تم کیوں اٹھاؤ ؟ کیا ان کو احساس نہیں ہوتا کہ تم ایک انسان ہو اور دو دو نوکریاں کر کے گزارا کرتی ہو؟ غصے اور بے بسی کی حدت سے ان کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔
یسی بات نہیں ہے ۔ تالیہ اداس ہوئی ۔ ابو بیمار رہتے ہیں بھائی کی نوکری سے گزارا نہیں ہوتا ۔ بھا بھی کے بچے ہیں وہ کام نہیں کر سکتیں ... اور وہ سب کوشش تو کرتے ہیں نا۔ پھر ان کا کیا قصور؟ اگر میں ذرا پڑھ لکھ جاتی تو کوئی نوکری کر لیتی اچھی سی ۔ لیکن خیر وہ کھلے دل سے مسکرائی۔ میرے کون سے رہے ہیں یہاں۔ نہ پڑھائی وغیرہ کرنی ہوتی ہے نہ ہمار پڑتی ہوں۔ اوپر سے ہوں بھی الیکل۔“ کھٹاک سے ڈوئی بوڑھے شیف نے اس کے کندھے پر دے ماری۔ وہ بلبلا اٹھی ۔ ” کیا ہے؟ روٹھے پن سے چیچنی بھی۔
ہزار دفعہ کہا ہے اس بات کا اعلان نہ کیا کرو۔ پولیس نے پکڑ لیا نا تو بری پھنسو گی۔“ ہاں تو آپ کے سامنے ہی کہ رہی ہوں کون سا کسی اور کو بتارہی ہوں۔ وہ کندھا سہلاتے ہوئے خفگی سے ان کو دیکھ رہی تھی ۔ اب الیگل ہوں تو اس میں میرا کیا قصور ؟ ٹریول ایجنسی نے دھوکہ دیا تھا۔ مجھے تو یہاں آکر علم ہوا۔ میرے تو پیپرز بھی انہوں نے رکھ لئے۔ خیر وہ تو انہوں نے دوسرے نام سے بنوائے تھے غلطی میری اتنی ہے کہ میں نے اس وقت عقل سے کیوں نہیں کام لیا۔ مگر مجھے نوکری چاہیے تھی
Haalim Episode #1 Part #4 By Nimra Ahmed | most romantic urdu novels
حالم ( نمرہ احمد )
Next Episode | Read All Episode | Previous Episode |
Click Below For Reading More Novels
No comments:
Post a Comment