Mann K Mohally Main Episode #12 By Shakeel Ahmed Chouhan
Mann K Mohally Main Episode #12 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels
من کے محلے میں
Episode #12
”مزمل بیٹا! میں کل معراج کے جانا چاہتی ہوں “مزمل کے چہرے پر کئی سوال تھے۔ اُس نے سوچتے ہوئے پوچھا :
”کیوں…؟“
”عشال کا نکاح ہے…تمھاری فیکٹری بھی دیکھنا چاہتی ہوں ایک اور بھی ضروری کام ہے“
”آپ کو ڈاکٹر نے سفر سے منع کیا ہے“ مزمل نے سنجیدگی سے کہا۔
”ضروری کام نہیں پوچھو گے…!“ممتاز بیگم نے تجربے کی آنکھ سے مزمل کو دیکھا۔
”بتائیں …“مزمل نے نظریں چُراتے ہوئے پوچھا۔
”کسی سے معافی مانگنی ہے“ممتاز بیگم نے حتمی انداز میں بتایا۔
”کس سے…؟“مزمل بغیر توقف کے بولا۔
”حکیم عاقل انصاری سے“ممتاز بیگم نے سکون سے جواب دیا۔
”آپ کیسے جانتی ہیں حکیم صاحب کو…؟“مزمل ششدر تھا اپنی دادی کی بات سُن کر۔
”میں ہی تو جانتی ہوں اصل حقیقت“ممتاز بیگم نے کھوئی کھوئی آواز میں کہا۔
”کیسی حقیقت…؟“اُس نے ایسے کہا جیسے اُس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
”ہم دو بہنیں تھیں جنوبی پنجاب میں ابّا اور تایا کی ہزاروں ایکڑ زمین تھی۔ میری بڑی آپا کا نام عاصمہ تھا۔ وہ تایا کے بیٹے شہوار کی منگیتر بھی تھی۔ میں چھوٹی تھی آپا مجھ سے 10سال بڑی تھی ۔ آپا ملتان میں پڑھتی تھی آپا کو اپنے کلاس فیلو عقیل انصاری سے محبت ہوگئی۔ آپا نے ابّا اور تایا کی مرضی کے خلاف عقیل سے شادی کر لی۔
ابّا نے آپا کو جائیداد سے عاق کر دیا اور قسم کھائی کہ وہ پوری زندگی آپا کی شکل نہ خود یکھیں گے اور نہ اپنے خاندان میں سے کسی کو دیکھنے دیں گے۔
ابّا نے میری شادی ایک بیور کریٹ سے کردی۔ ہمایوں بیگ مطلب تمھارا دادا وہ پڑھا لکھا آدمی تھا اور میں مڈل پاس۔ آپا کی شادی کے بعد ابّا نے مجھے پڑھنے نہیں دیا۔ میری تمھارے دادا ہمایوں بیگ سے بنی نہیں اُس نے مجھے طلاق دے دی۔
تب تمھارا باپ مدثر بیگ صرف چھ ماہ کا تھا۔ ابّا نے مجھے یہ والا گھر خرید دیا اور کہا کہ تم لاہور ہی میں رہو۔
ایک بیٹی نے مرضی سے شادی کر لی دوسری کی طلاق ہوگئی۔ ابّا کو اِن دونوں صدموں کا گہرا اثر ہوا وہ بھی چل بسے۔ ابّا کے مرنے کی دیر تھی میرے تایا کے بیٹے شہوار نے ہماری آدھی زمین پر قبضہ کر لیا۔ عدالت میں کیس چل پڑا۔ عدالت میں کیس چلتا رہا، فیصلہ نہیں ہوا۔
میں نے مدثر کے لیے شادی نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تمھارا باپ مدثر جوان ہوگیا میں نے اُسے بڑے لاڈوں سے پالا تھا۔
ایک دن کہنے لگا :
”میں نے ایک لڑکی پسند کی ہے اُسی سے شادی کروں گا۔“ میں نے فوراً رضا مندی ظاہر کردی۔ مدثر کا سب سے قریبی دوست نعمان لغاری اِس کی شادی میں پیش پیش تھا۔ نعمان کا تعلق ملتان سے تھا۔ تمھارے والدین مدثر اور ماریہ کی شاد ی کے ایک ہفتہ بعد نعمان کی بھی شادی تھی۔
مدثر نے کہا میں نعمان کی شادی میں ملتان جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا جاؤ بیٹا ۔تمھارے والدین ملتان چلے گئے۔ نعمان کی شادی کے پندرہ دن بعد مدثرنے نعمان اور اُس کی بیوی کی دعوت کی۔نعمان کی بیوی کا نام نیلم تھا۔ تمھاری ماں ماریہ جتنی ماڈرن تھی۔ نیلم اُتنی ہی سادہ تھی۔
نعمان لغاری کی نوکری بھی لاہور ہی میں تھی۔ چاروں روزانہ ملتے گھنٹوں باتیں کرتے سیر پر جاتے باہر کھانا کھاتے میں نے مدثر اور ماریہ کو کبھی منع نہیں کیا تھا۔
نعمان کے گھر والے ملتان میں تھے۔ اُسے روکنے والا یہاں کوئی نہیں تھا۔ایک دن نیلم نے باتوں باتوں میں اپنی ماں کا ذکر کیا تب مجھے پتا چلا وہ تو آپا عاصمہ کی بیٹی ہے۔ میں نے یہ بات مدثر سے کی اور کہا میں اپنی بہن سے ملنا چاہتی ہوں۔
اِن دنوں شادیوں کو چار پانچ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ تمھاری ماں بھی اُمید سے تھی اُدھر نیلم بھی ماں بننے والی تھی۔
کوئی چھ ماہ بعد تمھاری ماں ناراض ہو کر سمن آباد اپنے میکے چلی گئی۔
میں نے مدثر سے پوچھا کیا بات ہے۔ اُس نے مجھے بتایا وہ مجھ سے طلاق لینا چاہتی ہے۔ میں منانے کے لیے سمن آباد گئی پر ماریہ واپس نہیں آئی وہ اپنی طلاق کی ضد پہ ڈٹی رہی۔ چند دن گزر گئے نعمان کا بھی آنا جانا بند ہوگیا میں نے مدثر سے پوچھا نعمان اور نیلم نہیں آئے کہنے لگا۔
نعمان اور نیلم ملائیشیا چلے گئے ہیں۔
میں نے اِس سے کئی بار کہا مجھے آپا سے ملنا ہے۔ نیلم سے اُس کے گھر کا پتہ لو۔ مدثر ٹال مٹول کرتا رہا۔ کئی مہینے گزر گئے۔ ایک دن خبر آئی ماریہ کو بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اگلے دن وہ تجھے یہاں چھوڑ گئی۔ میں پریشان تھی ایک دن کا بچہ اور ماں یہاں چھوڑ گئی۔ مدثر نے مجھے بتایا کہ اُس نے ماریہ کو کب کی طلاق دے دی ہے۔
ایک دن تم بہت رو رہے تھے۔ تم فیڈر سے دودھ نہیں پی رہے تھے۔
تب باسط کوئی دو ماہ کا ہوگا بلقیس نے تمھیں دیکھا تو مجھ سے کہنے لگی۔ بیگم صاحبہ میں چھوٹے صاحب کو اپنا دودھ پلا دوں۔ میں نے کچھ دیر سوچا پھر کہا اپنے کواٹر میں لے جا کر پلا دیا کرو۔
تم ایک مہینے کے تھے ایک دن عاقل انصاری ہمارے گھر آیا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا وہ کون ہے؟۔
کہنے لگا مدثر کدھر ہے میں نے پوچھا کیا بات ہے کہنے لگا وہ میری بہن کو بھگا کر لے آیا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے تمھاری بہن اُس نے مجھے بتایا نیلم میری بہن ہے مدثر اُسے لے کر بھاگ گیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ کی عشال کو چھوڑ کر نیلم مدثر کے ساتھ بھاگ گئی۔ چند دن بعد ایک اور خبر سننے کو ملی نعمان نے سمن آباد ماریہ کے گھر پر اُس سے نکاح کر لیا ہے۔
آپا کو محلے کی کسی عورت نے طعنہ دیا تو بھی بھاگ کر آئی تھی۔
اس لیے تیری بیٹی بھی بھاگ گئی ہے۔ آپا یہ برداشت نہ کر پائی اور چل بسی۔
حکیم عاقل انصاری تب ماسٹر عاقل انصاری تھا، جو کہ ماسٹر محمود کا جگری دوست تھا۔ ماسٹر محمود نے مشورہ دیا تم میرے گاؤں آجاؤ۔ عاقل اور عروسہ بھی ملتان میں لوگوں کی طنزیہ باتوں سے تنگ آگئے تھے۔
عاقل نے ملتان سے اپنا سب کچھ بیچ دیا اور ماسٹر محمود کے پاس آگیا۔
معراج کے میں سب یہی جانتے ہیں کہ عشال عاقل اور عروسہ کی بیٹی ہے۔ اُن کی خود کی اولاد نہیں تھی انہوں نے عشال کو بیٹی سے بڑھ کر پیار دیا۔
تم آٹھ سال کے ہوگئے۔ ہماری عدالت میں تاریخ تھی اُس دن زمین کا فیصلہ بھی میرے حق میں ہوگیا۔
شہوار نے کیس ہارنے کے بعد عدالت کے احاطے سے باہر مجھ پر فائرنگ کروادی۔ میرا گارڈ زخمی ہوا۔ اگر باسط کا باپ بدر حسین میرے حصے کی گولی اپنے سینے پر نا کھاتا تو آج قبر میں اُس کی جگہ میں سو رہی ہوتی۔
بدر حسین اور بلقیس کے بڑے احسان ہیں مجھ پر“ ممتاز بیگم کے آنسوں گالوں پر گر رہے تھے۔ مزمل نے دیکھا تو دادی کے گلے لگ گیا اور انہیں دلاسہ دیا۔
”دادؤ! آپ معراج کے ضرور جائیں۔ پر آپ حکیم صاحب سے معافی نہیں مانگیں … مدثر بیگ کے گناہوں کی آپ کیوں معافی مانگتی ہیں“ مزمل نے رُندھی ہوئی آواز کے ساتھ کہا۔
”مجھے مدثر پر سب سے زیادہ گلہ اس بات کا ہے۔
اُسے نیلم کو بھگا کر نہیں لے جانا چاہیے تھا۔ مجھ سے کہتا میں آپا سے ہاتھ جوڑ کر رشتہ مانگ لیتی۔ ممتاز بیگم نے اپنے آنسو کو صاف کرتے ہوئے کہا۔
#…#
”ایک بوجھ ہے دل پر سوچتا ہوں عشال کو بتا دوں“ حکیم صاحب احساسِ ندامت سے عروسہ سے مخاطب تھے۔
”کیسا بوجھ…؟“ عروسہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
”جن دنوں نعمان نے نیلم کو گھر سے نکال کر ملتان بھیج دیا تھا۔
ایک دن نیلم نے جھجکتے جھجکتے مجھ سے کہا بھائی آپ سے ایک بات کرنی ہے۔ میں نے کہا بولو کہنے لگی آپ کو پتہ ہے نعمان نے مجھے گھر سے کیوں نکالا میں نے کہا بتاؤ۔ نیلم کہنے لگی وہ اپنے دوست مدثر بیگ کی بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ مدثر بیگ نے ماریہ کو طلاق دے دی ہے اور نعمان نے مجھے بھی طلاق کے ساتھ ہی یہاں بھیجا ہے۔“
”تمھیں طلاق ہوگئی ہے۔
“میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی یہ سن کر۔ نیلم کہنے لگی :
”بھائی آپ گھبرائیں نہیں میں آپ پر بوجھ نہیں بنوں گی صرف بچے کی پیدائش تک میں یہاں ہوں اُس کے بعد میں مدثر سے نکاح کر لوں گی۔“
”مدثر کیوں کرے گا تم سے نکاح…؟“
”وہ مجھے پسند کرتا ہے اور میں بھی۔ “نیلم کی یہ بات سن کر مجھے بہت غصہ آیا، اتنا اُس کی طلاق کی خبر سن کر بھی نہیں آیا تھا۔
پھر نیلم نے مجھے بتایا مدثر کوئی غیر نہیں ہماری خالہ ممتاز کا بیٹا ہے۔ یہ بات سن کر میں آپے سے باہر ہوگیا۔ ابّا اور امّاں نے اپنے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ ابّا کے شریکے نے اُن کا حقہ پانی بند کر دیا۔ نانا اور خالہ نے بھی کبھی ہماری خبر نہیں لی تھی۔ ابّا بیمار ہوگئے۔ امّاں نے لوگوں کے بچوں کوٹیوشن پڑھا پڑھا کر ابّا کا علاج کروایا اور ہمارے بھوکے پیٹوں کو کھانا فراہم کیا ۔
چند دن بعد ابّا چل بسے … تب میں میٹرک میں پڑھتا تھا۔میں نے یہ خبر نانا اور خالہ کو بھجوائی مگر اُس طرف سے بھی کوئی نہ آیا ۔ابّا کے خاندان والوں نے بھی اُن کے جنازے میں شرکت نہ کی مجھے جتنی نفرت ابّا کے خاندان سے تھی اُسے سے کہیں زیادہ امّاں کے گھر والوں سے بھی تھی۔“
حکیم صاحب بات کرتے کرتے رُک گئے۔ کمرے سے صحن میں گئے وہاں گھڑے سے ایک پیالہ پانی پیا پھر آکر کمرے میں عروسہ کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔
عشال بھی اُن کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی۔
”میں نے نیلم سے کہا میں تمھاری کسی سے بھی شادی کردو ں گا مگر مدثر سے کسی قیمت پر نہیں ہونے دوں گا“ حکیم صاحب نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر خاموش ہوگئے عروسہ ٹک ٹکی لگائے حکیم صاحب کو دیکھ رہی تھی۔ عشال بھی خاموشی سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی تھی۔
”ہم جتنے مرضی مذہبی بن جائیں عورت کو اُس کا حق نہیں دیتے۔
اپنی پسند سے شادی کر نا ہر عورت کا شرعی حق ہے۔ حق دینا تو دور کی بات ہم تو پوچھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ امّاں کا صرف اتنا قصور تھا انہوں نے اپنی پسند سے شادی کی۔ امّاں جیسی نیک سیرت عورت میں نے اپنی پوری حیاتی میں نہیں دیکھی۔
نیلم نے کچھ غلطیاں ضرور کی تھیں ۔آخر میں وہ بھی شادی ہی کرنا چاہتی تھی ۔ میں اُس وقت مان جاتا تو عشال اور مزمل کو ماں باپ کا پیار مل جاتا۔
عروسہ بیگم تم نے مجھ سے کئی بار پوچھا عشال کے کہنے پر آپ نے حارث کے حق میں فیصلہ کیوں دے دیا۔ پسند سے شادی کرنا عشال کا حق تھا میں نے تو صرف اُس کا حق دیا ہے اُسے…“
حکیم صاحب اِس بات سے انجان تھے کہ عشال اُن کے پیچھے ہی کھڑی ہے۔
”پتہ ہے آج مجھ سے کہنے لگی ابّا میں اپنی ایک سہیلی کو نکاح پر بلانا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا بھابھی مریم کو میں نے کہہ دیا ہے۔
بولی میں ماہم کی بات نہیں کر رہی دادی ممتاز وہ ہیں میری سہیلی آپ نے مجھے ماڈل ٹاؤن بھیجا تھا۔ آپ کے ہی کہنے پر میں نے اُن سے بات کی پھر وہ میری سہیلی بن گئیں۔ اب سوچ رہا ہوں خالہ ممتاز کا کیسے سامنا کروں گا۔“
عشال آگے بڑھی اور کرسی کے پیچھے ہی سے حکیم صاحب سے لپٹ گئی اور کہنے لگی :
”ابّا ! میں نے بھی اپنی پوری زندگی میں آپ سے اچھا شخص نہیں دیکھا۔
آپ دونوں میرے لیے میرے پرینٹس سے بڑھ کر ہیں۔ ایک ریکویسٹ ہے آپ سے آپ دادی ممتاز سے ماضی کی کوئی بات ڈسکس نا کریں بس اُن سے ملنا شروع کردیں۔“
حکیم صاحب نے اُسے کلائی سے پکڑا اور اپنے سامنے عروسہ کے پلنگ پر اُس کے قدموں میں بٹھا لیا۔
”حارث کی کوئی خیر خبر…؟“
”وہ سب شاپنگ سے آچکے ہیں اور اِس وقت معراج کے اپنے گھر پر ہیں“ عشال نے خوشی خوشی تفصیل دی۔
”وہ سب کون…؟“ عروسہ نے تجسس سے پوچھا۔
”آنٹی حلیمہ اُن کا بیٹا۔ مومنہ اور آنٹی مریم“ انگلیوں کے پوٹوں پر گنتے ہوئے عشال بولی۔
”ساس کا نام لے لیتی ہو․․․․․․․․․․ منگیتر کا نہیں“ عروسہ نے عشال کو چھیڑا۔
”امّاں!“ عشال امّاں کہتے ہوئے شرمائی۔
”عشال بیٹی! تم کو کچھ اور خریدنا ہے تو پیسے لے لو“حکیم صاحب نے شفقت سے پوچھا۔
”نہیں ابّا !“ عشال نے مشکور نگاہوں سے حکیم صاحب کو دیکھا اور اُٹھ کر چلی گئی۔
Episode #12
Mann K Mohally Main Episode #12 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels
*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*
من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )
Next Episode | Read All Episode | Previous Episode |
Click Below For Reading More Novels
No comments:
Post a Comment