Mann K Mohally Main Episode #13 By Shakeel Ahmed Chouhan
Mann K Mohally Main Episode #13 By Shakeel Ahmed Chouhan | Urdu Novel | Romantic novels in urdu | best urdu novels | urdu novel bank | novels urdu | most romantic urdu novels
حفیظ ملک بھی معراج کے گاؤں کا ہی رہنے والا تھا۔ وہ کئی سال پہلے باہر چلا گیا تھا۔ اُس کی بیوی حلیمہ اور مریم ایک ہی گاؤں کی تھیں۔ پھر ایک ہی گاؤں بیاہی گئیں۔ شادی کے چند سال بعد حلیمہ بھی مانچسٹر حفیظ ملک کے پاس چلی گئی۔ حارث ملک اُن دونوں کی اکلوتی اولاد ہے۔ چند سال پہلے حفیظ ملک کا انتقال ہوگیا تھا۔
مانچسٹر میں رہتے ہوئے بھی حفیظ نے معراج کے سے تعلق نہیں توڑا، وہ سال میں ایک آدھ چکر پاکستان کا ضرور لگاتا تھا۔
سال پہلے حارث اپنی ماں حلیمہ کے ساتھ معراج کے آیا ہوا تھا۔ شادی کی ایک تقریب کے دوران حارث اورعشال نے ایک دوسرے کو دیکھا اور دل دے بیٹھے۔
حلیمہ بھی اپنے بیٹے کے لیے کسی پاکستانی لڑکی کی تلاش میں تھی۔ اُس نے اِس سلسلے میں اپنی سہیلی مریم سے بات کی مریم نے بھی عشال کا ہی نام لیا تھا۔
حکیم صاحب نے عشال کے لیے کسی اور لڑکے کو پسند کر رکھا تھا۔
عشال نے حکیم صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ حارث کو پسند کرتی ہے، آپ اُس کے حق میں فیصلہ کر دیں۔
اسی طرح حارث اور عشال کا رشتہ طے پایا تھا۔
#…#
”مریم تم نے بڑا اچھا رشتہ کروایا ہے۔ … میں تو بہت پریشان تھی… حارث کے رشتے کو لے کر۔ ملک صاحب کی ڈیتھ کے بعد تو مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی میں کیا کروں“ حلیمہ اپنی سہیلی مریم سے گپ شپ لگا رہی تھی۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ہی گوجرانوالہ سے شاپنگ کرکے لوٹے تھے۔ مومنہ آم کاٹ رہی تھی اور حارث اپنے موبائل پر مصروف تھا۔
”اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا…تو میں حکیم صاحب سے عشال کا ہاتھ اُس کے لیے مانگ لیتی“
”آنٹی پھر میرا کیا ہوتا…“ حارث نے موبائل سے توجہ ہٹا کر جلدی سے کہہ دیا۔
”یہ بھی تو تمھارا ہی بیٹا ہے…“ حلیمہ نے اپنے بیٹے کی طرف ممتا بھری نگاہ ڈالی تھی۔
”اِسی لیے تو چاند سی لڑکی ڈھونڈ کر دی ہے“
”آنٹی جی آپ ہی امی جی کو کچھ سمجھائیں کبھی میری تعریف بھی کر دیا کریں“ مومنہ نے کٹے ہوئے آموں کی ٹرے اپنی ماں اور آنٹی کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے گلہ کیا اور خود کچن میں ہاتھ دھونے چلی گئی۔
”آجاؤ حارث بیٹا…“ مریم بی بی نے حارث کو آموں کی صلہ ماری۔ حلیمہ یہ بات سُن کر ہنس دی جبکہ مریم بی بی نے سُنی ان سُنی کر دی تھی۔
”مریم کیوں نہیں کرتی ہماری گڑیا کی تعریف“ حلیمہ نے آم کھانے سے پہلے ہی کہہ دیا۔
آم پارٹی کے بعد حارث باہر نکل گیا اب مومنہ کچن میں برتن دھو رہی تھی۔
مریم بی بی اور حلیمہ صوفے پر ساتھ بیٹھی ہوئیں تھیں۔
”مریم! ایک بات تو بتاؤ عشال دیکھنے میں خوبصورت ہے۔ شریف بھی ہے ۔ بس تھوڑی مغرور سی لگتی ہے۔ زیادہ بات وات نہیں کرتی چپ چپ سی رہتی ہے“حلیمہ نے اپنا اندیشہ ظاہر کر دیا۔
”چپ چپ سی…اور مغرور…تم بھی نا…ارے وہ تو انتہائی چرب زبان ہے… تم فکر نہ کرو بڑے اچھے اخلاق کی مالک ہے اپنی عشال…!“
”اچھا میں نے تو اُسے زیادہ بات کرتے نہیں دیکھا اِس لیے دل میں خیال آیا۔“
”تم نے اُسے ہمیشہ حکیم صاحب کے سامنے دیکھا ہے وہ اُ ن سے بہت ڈرتی ہے۔“
”بھلا حکیم صاحب کو یہاں آئے ہوئے کتنے سال ہوگئے ہیں۔“ حلیمہ نے پوچھا۔
”کوئی چوبیس پچیس سال ہو چکے ہیں۔ اِن سالوں میں اِس علاقے میں جو عزت حکیم صاحب نے کمائی ہے۔ وہ علاقے کے بڑے بڑے چوہدریوں کو بھی نصیب نہیں ۔ حکیم صاحب کی لوگ بڑی حیا کرتے ہیں۔ اِس سارے علاقے میں بڑے بڑے فیصلوں میں لوگ حکیم صاحب کو بلاتے ہیں سچ کہو تو ماسٹر صاحب کے گزر جانے کے بعد اللہ کے بعد حکیم صاحب کا ہی آسرا تھا۔ “
”چوہدری شمشاد اور شمعون… وہ نہیں پوچھتے…؟“
”اُن کی بھلی پوچھی… شمعون کی یاری ہی نہیں مان اور لالہ جی کی کبوتر بازی… وہ دونوں باپ بیٹا زمین کی کمائی بیٹھ کر کھا رہے ہیں۔
“
”تمھاری زمین کی بھی…؟“
نہیں اب نہیں…شمعون نے سڑک کے ساتھ سے 5ایکٹر زمین بیچ دی تھی… لالہ جی بڑے گرجے ماہم کہنے لگی تایا ابّو آپ سب کی زمین تقسیم کر دیں ۔ لالہ جی کو پتہ نہیں کیا سوجی اگلے دن ہی سب کے نام پر الگ الگ رجسٹری انتقال کروادیا تھا۔ اب پانچ مربعے ماہم کے نام پر ہیں اور پانچ ہی مومنہ کے نام پر۔
”تمھارے نام پر کچھ نہیں…؟“ حلیمہ حیرت سے بولی۔
”میرے نام سے میری دو بیٹیا ں جو ہیں“ مریم بی بی نے ممتابھری نگاہ مومنہ پر ڈالی جو پاؤں سمیٹے ہوئے صوفے پر بیٹھی ہوئی اپنی ماں اور آنٹی کی باتیں سُن رہی تھی۔
” اللہ کا شکر ہے تم نے اپنی بیٹیوں کا آنے والا کل تو محفوظ کر لیا…“ مومنہ اپنی آنٹی کے انداز پر ہنستے ہوئے بولی:
”آنٹی مستقبل چھوڑیں …کل کی سوچیں کل نکاح ہے“
#…#
اگلے دن حسب معمول مزمل نے فجر کی نماز پڑھی مسجد کی سیڑھیاں اُترتے ہوئے اُس نے اِک نظر والا دیدار کیا۔
ماہم کے چہرے پر پریشانی تھی۔ اُس وجہ سے مزمل بھی بے چین ہو گیا۔ وہ فیکٹری جانے کی بجائے گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر گاڑی اسٹارٹ کرکے لاہور کی طرف سفر کرنے لگا۔ گندم کی کٹائی کے بعد کھیت ویران تھے۔ دور دور تک کھیتوں میں ہر یالی کا نام و نشان نہ تھا اُس نے پچھلے چھ ماہ میں ماہم کے چہرے پر ایسی پریشانی نہیں دیکھتی تھی۔
مزمل نے بیک ویو مِرر میں دیکھا ۔ اُسے ماہم کا اضطرابی چہرہ نظر آیا۔
آج اُسے ماہم کا چہرہ ڈرائی فروٹ کی طرح لگا تھا۔ مزمل بیگ خود بھی ڈرائی فروٹ ہی کی طرح تھا۔ توانائی سے بھرپور مگر خشک۔ توانائی اُس کے جذبوں اور سوچ میں تھی اور خشکی اُس کے مزاج کا حصہ۔ وہ بداخلاق نہیں تھا کوئی ایسا خوش اخلاق بھی نہیں تھا۔
وہ سوچوں کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا ماڈل ٹاؤن اپنے گھر پہنچ گیا پھر دادی کے کمرے کی طرف چل پڑا۔
دادی کے کمرے کے باہر دستک دی اجازت ملنے کے بعد اندر چلا گیا اور جاتے ہی دادی کو دیکھ کر بولا :
”آپ یہ سوچ رہی ہوں گی۔ میں آج فیکٹری کیوں نہیں گیا“
”نہیں بالکل بھی نہیں…“دادی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”آپ کو پوچھنا چاہیے نا!“اُس نے کچھ الجھے ہوئے کہا ۔ دادی کو تشویش ہوئی اُس کی بے چینی دیکھ کر۔
”اِدھر آؤ میرے پاس…یہاں بیٹھو…“ دادی نے مزمل کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو بخار سے تپ رہا تھا۔
”آپ ابھی تک معراج کے نہیں گئیں…“ اس نے ضدی بچے کی طرح کہا۔ دادی نے باذلہ کو بلایا اور کہا ڈاکٹر کو فون کرے۔ باذلہ مزمل کو اس کے کمرے میں لے گئی باذلہ نے آکر بتایا :
”بیگم صاحبہ ! ڈاکٹر نے کہا ہے تھکاوٹ کی وجہ سے بخار ہے۔ دوائی میں نیند کی گولی بھی ڈال دی ہے ریسٹ کریں گے تو ٹھیک ہو جائیں گے“
”پریشانی کی تو کوئی بات نہیں…تم کب تک ڈاکٹر بنو گی“ممتاز بیگم نے دو الگ الگ باتیں ایک ساتھ پوچھ لیں۔
باذلہ سن کر ہنس پڑی اور ممتاز بیگم کو تسلی دیتے ہوئے بولی :
”بیگم صاحبہ گھبرائیں مت․․․․․․․․․․مزمل بھائی بالکل ٹھیک ہیں اور میں بھی جلد ہی ڈاکٹر بن جاؤں گی“باذلہ نے بڑی بوڑھی عورت کی طرح تشفی دی اور کمرے سے نکل آئی۔
مزمل سارا دن سوتا رہا۔ عصر کے بعد وہ اُٹھا تو گھر والے تیار ہو رہے تھے۔ ممتاز بیگم نے اپنے ساتھ جانے کے لیے سب کو تیار کر لیا تھا۔
مزمل اپنے کمرے سے نیچے لاؤنج میں آیا تو ممتاز بیگم تیار بیٹھی تھیں، اپنی پوری ٹیم کے ساتھ، باذلہ کا انتظار ہو رہا تھا۔
ممتاز بیگم نے مزمل کو دیکھا تو اُن کی پریشانی دور ہوگئی۔
”ادھر میرے پاس آؤ“ مزمل ممتاز بیگم کے پاس گیا انہوں نے جلدی سے اُس کی پیشانی پر اپنی ہتھیلی رکھی مزمل مسکرا دیا۔
”دادؤ! میں ٹھیک ہوں…آپ لوگ جا کیوں نہیں رہے… “ مزمل مسکراتے ہوئے بولا۔
”آپ کی لاڈلی کا انتظار ہو رہا ہے“بلقیس نے بڑے انداز سے کہا ۔
مزمل نے غور سے بلقیس کے چہرے کو دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔ وہ آگے بڑھا اُس کے کانوں میں دادی کے الفاظ گونجے :
”میں چھوٹے صاحب کو اپنا دودھ پلا دوں“ وہ بلقیس کے گلے لگ گیا۔ بینش اور باسط دم بخود حیرت میں مبتلا تھے۔
مزمل باذلہ کے علاوہ بلقیس باسط یا بینش سے کوئی بھی فالتو بات نہیں کرتا تھا۔
کبھی اُن کے پاس نہیں بیٹھا۔ آج وہ بلقیس کے گلے لگ گیا تھا۔ بلقیس اور ممتاز بیگم کی آنکھوں میں آنسو آمڈ آئے تھے۔ بینش اور باسط اب بھی ششدر تھے۔ یہ جذباتی سین اور لمبا چلتا اگر باذلہ آکر کٹ نہ کردیتی۔
”مزمل بھائی! آپ ادھر ہو میں آپ کے کمرے میں کھانا لے کر گئی تھی“باذلہ نے بے خیالی میں کہہ دیا۔ جب اُس نے مزمل کو اپنی ماں کے گلے سے الگ ہوتے دیکھا تو زبان پر ہونٹوں سے بریک لگائی۔
مزمل بغیر کچھ بولے اپنے روم میں چلا گیا۔
بلقیس نے سوالیہ نظروں سے ممتاز بیگم کو دیکھا انہوں نے سر کو اثبات میں ہلایا۔ بلقیس ساری بات سمجھ گئی۔ اُس نے اپنے خاموش آنسو صاف کیے اور اپنی بہو اور بیٹے کی طرف دیکھنے لگی۔ باذلہ کو بھی کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ کھانے والی ٹرے اُس کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ کھانے کی ٹرے اُٹھائے ہوئے پھر سے مزمل کے روم کی طرف چل دی۔
مزمل کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ مزمل لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑا تھا۔ باذلہ نے کھانے کی ٹرے سینٹرل ٹیبل پر رکھی اور خود مزمل کے پیچھے کھڑی ہو کر بولی:
”بھائی! کھانا کھا لو آپ نے صبح سے کچھ نہیں کھایا مینگو ملک شیک اور فروٹ چاٹ بنا کر آپ کی فریج میں رکھ دی ہے۔ کچھ اور چاہیے تو بتا دیں“باذلہ ٹی وی رپورٹر کی طرح تیز تیز بول رہی تھی۔
مزمل پلٹا اور غور سے باذلہ کو دیکھا۔ اُس کے پاس گیا اور شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”اور کچھ نہیں چاہیے… تم جاؤ“
باذلہ چل پڑی ابھی اُس نے دو چار قدموں کی مسافت طے کی ہوگی ۔ مزمل کی آواز نے اُس کے قدم روک لیے
”روکو… باذلہ … !“مزمل چلتا ہوا ایک بار پھر سے باذلہ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اُس نے انتہائی اپنایت سے باذلہ کی پیشانی چوم لی، پھر ہاتھ کے اشارے سے جانے کو کہہ دیا۔
باذلہ روم سے باہر نکل آئی تھی۔ وہ کوریڈور سے چلتی ہوئی نیچے لاؤنج میں جاتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ شش و پنج میں مبتلا تھی۔ وہ تمام تحریفوں اور تاویلوں کے ساتھ بھی یہ گتھی سلجا نہیں پائی۔ پہلے مزمل اُس کی ماں کے گلے لگا پھر اُس پر محبت اور شفقت کی بارش کردی۔ مزمل اُس کو چھوٹی بہنوں ہی کی طرح سے شروع سے پیار کرتا آیا ہے۔
آج اُس کی محبت کچھ مختلف سی تھی۔
”باذلہ آ بھی جاؤ…“ بینش کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ اُس نے دیکھا وہ لاؤنج میں اکیلی ہی کھڑی تھی۔ باقی سب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔
ماڈل ٹاؤن سے معراج کے کا سفر باسط اور بینش نے اکھیوں ہی اکھیوں میں باتیں کرتے ہوئے کاٹا۔ پچھلی سیٹ پر ممتاز بیگم سوچ رہی تھیں عاقل انصار ی کاکیسے سامنا کروں گی۔
بلقیس کو لگا آج اُس کی محبت کا ثمر مل گیا۔
باذلہ یہ سوچ رہی تھی کہ مزمل بھائی آج اتنے جذباتی کیسے ہوگئے۔ وہ مزمل کو جذبات سے ماورا شخص سمجھتی تھی
اُس کا سوچنا ایک حد تک ٹھیک بھی تھا جو بھی تھا جیسے بھی تھا باذلہ آج خوش بہت تھی۔
Episode #13
Mann K Mohally Main Episode #13 By Shakeel Ahmed Chouhan | most romantic urdu novels
*___""Maan Ki Jaan""___*
*___""DSD""___*
من کے محلے میں ( شکیل احمد چوہان )
Click Below For Reading More Novels
No comments:
Post a Comment